کیا یہ گناہ ہے، مجھے بتاؤ!

ہفتہ 18 جنوری 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

کل 17جنوری (جمعہ) کو گھر سے نکلا تو کئی خیالات ذہن پر سوار تھے۔ دفتر میں نماز جمعہ کے بعد ہونے والی میٹنگ کے خیالات، پورے ہفتے میں انجام پانے والے امور کا جائزہ، جبکہ جمعہ کے روز یہ کالم بھی رقم کرنا ہوتا ہے اس کے بارے میں بھی سوچیں ذہن میں گردش کررہی تھیں۔ کالم کے حوالے سے کئی موضوعات تھے لیکن سوئی کمانڈو مشرف پر ہی اٹک رہی تھی۔ "کیا آئین اور قانون صرف غریبوں کیلئے ہے ؟کیا آئین کی نظر میں سب برابر نہیں؟ کیا جو وردی میں رہا ہو، یا فوجی کمانڈر رہا ہو اس پر آئین اور قانون کا اطلاق نہیں ہوسکتا؟ اگر ہاں ، پھر آئین کے آرٹیکل چھ میں آئین توڑنے والے کیلئے واضح لکھا ہوا ہے کہ "کوئی بھی شخص جو طاقت سے یا طاقت ظاہر کر کے یا کسی بھی غیر قانونی طریقے سے آئین کو منسوخ یا پامال کرے، یا اسے معطل کرے، یا التوا میں ڈالے، یا اسے منسوخ کرنے کی کوشش یا سازش کرے سنگین غداری کا مجرم ہوگا"کیا مشرف نے یہ سارے کام نہیں کئے؟ کیا انہوں نے آئین نہیں توڑا، طاقت سے آئین کو منسوخ نہیں کیا، اسے معطل نہیں کیا؟ اس کا جواب بھی ہر ایک ہاں میں دیتا ہے۔

(جاری ہے)

پھر وہ عدالت کا سامنا کیوں نہیں کررہے؟ اگر وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر دہشت گردوں کو بھی جواز ملے گا، قانون توڑنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، آئین اور قانون توڑنے والوں کے سامنے حائل ساری رکاوٹیں دور ہوجائیں گی اور ملک میں تفریق بڑھ جائے گی، افراتفری اور کشیدگی کا ماحول فروغ پائے گا۔
انہی سوچوں کے ساتھ میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان مصروف ترین سڑک "مری روڑ"پر ڈرائیو کرتے ہوئے اسلام آباد میں واقع اپنے دفتر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسی دوران روڑ کے کنارے کھڑی ایک خاتون نے رکنے کا اشارہ کیا۔ کون ہوسکتی ہے؟ ہاں ، اس مصروف ترین شاہراہ پر پبلک ٹرانسپورٹ کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور خواتین کو ٹرانسپورٹ کے حوالے سے زیادہ پریشانی کا سامنا ہے، شائد اس کو گاڑی نہیں مل رہی ہے، آفس لیٹ ہورہی ہوگی۔۔۔۔ یہی سوچ کر میں نے ہاں ناں کرتے ہوئے تقریبا ًپچاس ایک میٹر دور گاڑی سائیڈ پر لگادی۔ خاتون گاڑی کی طرف بڑھنے لگی، میں نے گاڑی کی فرنٹ سیٹ والا شیشہ نیچے کیا، خاتون نے قریب پہنچ کر سلام کیا۔ وعلیکم السلام ، باجی کہاں تک جانا ہے آپ نے، میں نے پوچھا۔ آپ کدھر جارہے ہیں؟ خاتون نے استفسار کیا۔ میں اسلام آباد دفتر جارہاہوں، آپ نے کہاں تک جانا؟ میں نے جواباً کہا۔ اچھا مجھے آگے ڈبل روڑ اتارو پلیز۔ میں نے گاڑی کا دروازہ اندر سے کھولا اور خاتون گاڑی میں بیٹھ گئی۔ آپ پٹھان ہیں؟ محترمہ نے میرے چہرے پر لمبی نظر دوڑا کر پوچھا۔ کیوں؟ آپ کے چہرے کا رنگ بہت گوراہے اور خوبصورت بھی ! خاتون نے کہا۔ نہیں باجی، میں کشمیری ہوں، عموماًکشمیریوں کا رنگ بھی صاف ہوتا ہے، میں نے جواب دیا۔
کیا آپ میری کچھ مدد کرسکتے ہیں؟ خاتون نے نظریں جھکائے پوچھا۔ کیا مدد، کس چیز کی مدد اور کیوں؟ میں نے پوچھا۔ میں بہت مجبور ہوں۔۔۔۔اس کے بعد خاتون خاموش ہوئی۔ چند لمحات کی خاموشی توڑنے کے بعد کہنے لگی، میں آپ کے ساتھ کہیں بھی جانے کیلئے تیار ہوں،
لیکن پلیز میری مدد کردیں، خاتون نے کہا۔ اس کا مطلب آپ غلط راستے پر چل رہی ہو، میں نے آپ کو ایک شریف عورت سمجھ کر لفٹ دی تھی لیکن شاید یہ میری غلطی تھی۔ نہ صرف خود گناہ کرتی ہو بلکہ مجھے بھی دعوت گناہ دے رہی ہو۔ میں نے تھوڑے تلخ لہجے میں جواب دیا۔ خاتون کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور تھوڑی سی چپ ہوگئی۔ پھر اپنے آنسو پونجتے ہوئے ایک دم بول پڑی، ، کون سا گناہ، کیا اپنے بچوں کا پیٹ پالنا گناہ ہے؟ اس گناہ کی وجہ سے ہی تو میرے دو بچے آج تک زندہ ہیں ورنہ کب کے بھوک سے مر چکے ہوتے، میرا کوئی نہیں ہے، بے سہارا ہوں، شوہر کا تین سال قبل انتقال ہوا،پھر خالو کے گھر میں پناہ لی، وہ بھی بہت جلد اللہ کو پیارے ہوگئے، اب بوڑھی خالہ کے ساتھ کرایہ کے گھر میں رہ رہی ہوں۔ خالو کے انتقال کے بعد نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتی رہی، کہیں نوکری نہیں ملی، مکان کیلئے کرایہ بھی نہیں تھا ، مالک مکان گھر خالی کرنے کیلئے کہہ رہا تھا، میں کیا کرتی، میرے لئے دو ہی راستے تھے یا اپنے بچوں کو قتل کرکے خودکشی کرلیتی یا اپنے جسم کو فروخت کرکے بچوں اور خالہ کا پیٹ پالتی، میں نے دوسرے راستے کو ترجیح دی۔ درس دینے والے بہت ہیں لیکن مدد کرنے والا کوئی نہیں، بتاؤ اپنے بچوں اور خالہ کا پیٹ پالنا گناہ ہے، بتاؤ کیا یہ گناہ ہے؟ میں خاموشی سے خاتون کے دل سے نکلنے والی درد بھری آواز سنتا رہا۔ اس دوران وہ اسٹاپ آگیا جہاں خاتون نے اترنے کیلئے کہا تھا، میں نے گاڑی روکی، اپنی جیب سے پرس نکالا،جتنے بھی تھوڑے بہت پیسے پڑے تھے خاتون کے ہاتھ میں تھما دئیے۔ بہت شکریہ، اللہ آپ کو خوش رکھے! یہ کہہ کر خاتون گاڑی سے اتر گئی۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ آسمان میرے اوپر ٹوٹ کر گررہا تھا۔ بیس کی انتہائی کم اسپیڈ میں گاڑی آگے جارہی تھی، لیکن مجھے پتہ نہیں تھا کہ میں کس دنیا میں ہوں، میرے اندر جو جذبات اور احساسات تھے وہ ناقابل بیان ہیں۔ "اس قسم کی خواتین ہی نہیں بلکہ ہم سب گنہگار ہیں، ان سے اللہ شاید بخش دے کیونکہ یہ مجبور اور بے بس ہیں، اپنے بچوں کی زندگی بچانے کیلئے اس راہ پر چل پڑی ہیں، لیکن کیا ہم ان کے بارے میں سوچتے ہیں؟ ہم تو بس انہیں طوائف سمجھتے ہیں، جسم فروش سمجھ کر ان سے نفرت کرتے ہیں، کیا اس سے ہم بری الزّمہ ہیں؟ ہم مسلمان ہیں، اگر ہم اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے احکامات پر چلیں تو نہ ان بے سہارا خواتین کو جسم فروشی کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئے گی ،نہ قوم گناہوں میں غرق ہوجائے گی اور نہ ہی معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوگا۔ لیکن ہم تو نام کے مسلمان ہیں۔ "یہی سوچتے ہوئے میں کلب روڑ کے کنارے قائم ایک مسجد کے پاس پہنچا، گاڑی مسجد کی پارکنگ میں کھڑی کی اور نماز جمعہ ادا کرنے کیلئے اندر داخل ہوا۔ مولوی صاحب خطبہ فرما رہے تھے، لیکن میرے کانوں میں اسی خاتون کی آواز گونج رہی تھی،، کیا یہ گناہ ہے، بتاؤ کیا یہ گناہ ہے، بتاو! امام صاحب بھی دوپہر کا کھانا کھا کر آئے تھے، اور ان کے بچوں نے بھی کھایا ہوگا، دیگر نمازی بھی مطمین ہوکر نماز کیلئے آئے ہونگے کہ انکے گھروں میں انکے اور انکے بچوں کیلئے روٹی پکی ہوگی، ورنہ شاید وہ بھی نماز کیلئے نہ آتے۔ میں بھی ہیوی قسم کا ناشتہ نوش کر کے گھر سے نکلا تھا۔ ایسے میں تو نماز ادا کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن کیا اس خاتون اور اس جیسی کی ہزاروں خواتین کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا؟میری آنکھوں کے سامنے مسلسل اس خاتون کے آنسوہیں اور کانوں میں اس کی آواز گونج رہی ہے،، کیا یہ گناہ ہے، مجھے بتاؤ!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :