وجہ وجودِ کائینات کی آمد

جمعرات 16 جنوری 2014

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

سید المرسلین ، خاتم النبیین ، فخرِ موجودات ، وجہ وجودِ کائینات حضرت محمد ﷺ عالمِ انسانیت کے لیے وہ عظیم انقلاب لے کر آئے جس نے کفر و شرک ،وحشت و بربریت ، ظلم و جبر ، نا انصافی اور جہالت کے سارے بُت پاش پاش کرکے سسکتی خزاں رسیدہ انسانیت کو کیف و مستی سے لبریز بہاروں سے روشناس کرا دیا ۔آج ہم اُسی عظیم ترین ہستی کا یومِ ولادت باسعادت منا رہے ہیں جس کی ذاتِ گرامی کو ربّ ِ کائینات نے وہ عظمت و رفعت اور مقامِ بلند عطا فرمایا جس پرروزِ ازل سے کوئی دوسرا جلوہ افروز ہوا ، نہ تا ابد ہو گا ۔یوں تو ربّ ِ کریم نے حکمت کی کتاب میں درج کر دیا کہ تمام نبی آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اُن کے درجات اُن کے ربّ کے ہاں ہیں لیکن اُسی حکمت کی کتاب میں میرے آقا ﷺ کے لیے ”مقامِ محمودہ“ کی نوید بھی درج ہے ۔

(جاری ہے)

یہ وہی افضل ترین مقام ہے جسے مفسرین مقامِ شفاعت بھی کہتے ہیں اور روزِ قیامت اسی مقام پر کھڑے ہو کر آقا ﷺ اپنی اُمت کی شفاعت کی دُعا فرمائیں گے ۔یہ مقام بس میرے نبی ﷺ کے لیے ہی مخصوص ہے اور کسی کے لیے نہیں ۔اسی کتابِ حکمت میں ” و رفعنا لک ذکرک “ بھی درج ہے جو گواہی ہے میرے رَبّ کی کہ میرے آقا سے بڑھ کر کسی کا ذکر بلند ہے ، نہ ہو سکتا ہے ۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ  سے روایت ہے کہ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا ”جبرائیل امین  میرے پاس آئے اور اُنہوں نے کہا ” میرا اور آپ کا رب مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں نے کس طرح آپ کا ذکر بلند کیا “؟۔میں نے کہا ”اللہ ہی بہتر جانتا ہے “ ۔ تب جبرائیل امین نے فرمایا ” اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپ ﷺ کا ذکر بھی کیا جائے گا “۔ عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے جانے والے بھی میرے آقا ﷺ ہی ہیں اور آپ ﷺپر کثرت سے درود بھیجنے کا حکم بھی ربّ ِ کائینات نے ہی دیا ہے۔ اِس لیے یہ تو طے ہے کہ
”بعد از خُدا بزرگ تو ئی ، قصّہ مختصر “
وجہ وجودِ کائینات ختم المرسلین حضرت محمد ﷺ نے حیاتِ انسانی کی معاشی ، معاشرتی ، سیاسی ، سماجی اور مذہبی زندگی کے ایک ایک پہلو کو منور کرنے کے لیے ایک ایسا ضابطہٴ حیات عطا فرمایا جو ہر لحاظ سے مکمل اور کامل ہے اور اُس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے اپنے آخری خطبے میں یہ ارشادبھی فرما دیا کہ اللہ کی کتاب اور رسول ﷺ کی سُنت کو مضبوطی سے پکڑنے والے تا قیامت گمراہ نہیں ہو سکتے ۔لا ریب وطنِ عزیز میں حُبِ رسول ﷺ نے ہر مسلمان کے دل کو یوں مسخر کر رکھا ہے کہ ابلیسیت کا وہاں سے گزر ممکن ہی نہیں ۔ حبِ رسول ﷺ ہی وہ واحد محور و مرکز ہے جس پر ہم سب بِلا امتیاز ایک ہیں ۔یومِ ولادتِ رسول ﷺ پر ہم اپنی ایمان افروز عقیدتوں کا بھرپور اظہار بھی کرتے ہیں ۔میلاد کی محافل سجاتے ، گھروں اور مساجد میں چراغاں کرتے ، سڑکوں اور بازاروں میں جھنڈیاں لگاتے اور جلوسوں میں با آوازِ بلند درور شریف بھی پڑھتے ہیں ۔اِس دن ہر گھر اور ہر دَر روشنیوں کا عجب مسحور کُن نظارہ پیش کرتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے فضائیں بھی حبِ رسول ﷺ سے معطر ہو گئی ہوں لیکن ۔۔۔ لیکن جوں ہی یہ دن تمام ہوتا ہے ہمارے اندر کے سہمے سُکڑے شیطان سینہ تان کر باہر آ جاتے ہیں اور ہم حبِ رسول ﷺ کے تمام تقاضوں کو بھلا کر شیطانِ رجیم کی غلامی کا طوق اپنے اپنے گلے میں سجا لیتے ہیں ۔پھر وہی فرقہ واریت ، وہی گروہوں میں بٹی قوم ، وہی لسانی فسادات اور وہی مباحث کے ”شہید کون ؟ “۔ حالانکہ حبِ رسول ﷺ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم جذبہٴ ایمانی سے سرشار ہو کر اُس مکمل ضابطہٴ حیات کے لیے باہر نکل پڑیں جس کے نفاذ کے بعد ہمارے گمراہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اِس کی ضمانت خود میرے آقا ﷺ نے دی ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ ایک تو من حیث القوم ہماری پختگی ٴ ایماں کا یہ عالم ہے کہ

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اور دوسرے کس کی شریعت اورکس کا دین نافذ کریں ؟ ، شیعہ کا ، سُنی کا ، بریلوی کا ، دیو بندی کا ، اِہلِ حدیث کا یا پھر طالبان کا؟۔یہ فرقہ واریت کا عفریت ہمارے علمائے کرام کا عطا کردہ ایسا تحفہ ہے جس نے سیکولر طبقے کو بجا طور پر یہ کہنے کا حق دے دیا ہے کہ فی زمانہ (نعوذ باللہ) اسلام کا نفاذ ممکن ہی نہیں ۔ہمارے دائیں بازو کے سیاستدان ہوں یا بائیں بازو کے ، سبھی کو وہ جمہوریت مرغوب ہے جس میں بقولِ اقبال ”بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے “ ۔دینِ مبیں میں تو صرف ”صائب الرائے “ کو ہی رائے دینے کا حق ہے ہر ”صاحب الرائے“ کو نہیں لیکن جمہوریت میں فاتر العقل کا بھی ایک ووٹ ہوتا ہے اور مسلمہ دانشور کا بھی ایک ہی ۔اسی لیے جمہوریت بہترین انتقام ہے اور اِس منتقم مزاج جمہوریت کا رول بھی صرف راندہٴ درگاہ لوگوں پہ چلتا ہے ۔ اِس جمہوریت کے تحت جو آئین بھی بنا لیجئے ، اُس کا نفاذ صرف مجبور و ں اور مقہوروں پر ہی ہو گا اور یہ آئین اشرافیہ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا ۔یہ بھی جمہوریت کا ہی ثمر ہے کہ مفلس جرم کرے تو بد ترین کال کوٹھری اور مقتدر کرے تو پُر تعیش گھر میں نظر بندی ۔ مفلس کے لیے قانونی چنگیزیت ہمہ وقت تیار اور مقتدر کے لیے ”مردِ بیمار“ ۔
اب جبکہ یہ طے ہے کہ ہم اُس مکمل ضابطہٴ حیات کو نافذ کرنے کے اہل نہیں جو صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ عالمِ انسانیت کے لیے ربِ کردگار کا عظیم تحفہ ہے اور جسے میرے نبی ﷺ نے عملی طور پر نافذ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ اِس سے مکمل کوئی ضابطہٴ حیات ہو ہی نہیں سکتا ، تو کیا ہم اجتماعی نہ سہی اپنی انفرادی زندگی میں اسے اپنی ذات اور اپنے خاندان پر نافذ کرنے کے قابل بھی نہیں ؟۔ کیا روحِ محمد ﷺ کا یہ تقاضہ نہیں کہ اگر ہم واقعی عاشقانِ رسول ﷺ ہیں تو پیرویٴ رسول ﷺ کو اپنی زندگی کا محور و مرکز بنا لیں ؟۔ہم ”انجمن غلامانِ رسول ﷺ “ اور ” انجمن عاشقانِ رسول ﷺ “ بنانے میں تو بہت تیز ہیں لیکن کیا ہماری عملی زندگی میں حبِ محمد ﷺ کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی نظر آتی ہے ؟۔ میرے آقا ﷺ نے تو جو کچھ ارشاد فرمایا ، اُس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا اور لا ریب ہماری معاشی ، معاشرتی اور مذہبی زندگی کے ہر پہلو کی عملی شہادت میرے نبی ﷺ کے وجود کی صورت میں پوری صراحت کے ساتھ نظر بھی آرہی ہے اور یہ اعجاز ہے میرے آقا ﷺ کا کہ وہ ہر شخص اور ہر شعبہٴ زندگی کے لیے عملی نمونہ ہیں ۔پھر کون ہے جو روزِ قیامت کہہ سکے کہ وہ راہِ راست سے محض اِس لیے بھٹک گیا کہ اُس کے سامنے کوئی مثال ہی نہیں تھی ۔یومِ ولادتِ رسول ﷺ پر چراغاں بجا جلسے جلوس اور میلاد کی محافل بھی درست کہ یہ ہماری عقیدتوں کا کھلا اظہار ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ 365 دنوں میں سے صرف ایک دن اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرکے باقی سَچے اور سُچے عاشقانِ رسول ﷺ بَن پاتے ہیں ؟۔پتہ نہیں یہ کمزوریٴ عشق ہے یا کمزوریٴ ایماں کہ ہم کائینات کی محبوب ترین ہستی کے تتبع میں ایک لمحہ بھی گزارنے کو تیار
نہیں، دعویٰ پھر بھی یہ کہ ہم عاشقانِ رسول ﷺ ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :