ہم ہیں پاکستانی

ہفتہ 18 جنوری 2014

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

ہمارے ملک میں مہنگائی کے جن نے عوام الناس کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے۔آلو ،پیاز اور ٹماٹر ہانڈی میں ڈالنے کو خریدنا مشکل ہو چکے ہیں۔سردیوں میں انڈے خریدنے جاؤ تو دکاندار غصے میں گندے ٹماٹر تک نہیں مارتا بلکہ محض آنکھیں دکھاتا ہے اور جیب سے سارے پیسے نکالنے کی ساری ترکیبیں استعمال کرنے سے باز نہیں آتا۔کسی زمانے میں لوگ ریڑھی ،ٹھیلے والے سے سبزی اس لئے خریدلیتے تھے کہ سستی ہو گی لیکن اب تو وہاں بھی سبزی گوشت کے بھاؤ ہی ملتی ہے۔دال کھانے والے بھی اب دلیلوں پر گزارہ کرتے ہیں۔فروٹ اتنا مہنگا کہ اسے کسی حسین دوشیزہ کی طرح دور سے ریڑھی پر دیکھ کر ہی آنکھیں ٹھنڈی کی جا سکتی ہیں۔گوشت خریدنے جاؤ توسب کو ایک انجانے وہم کا سامنا ہوتا ہے۔ خدانخواستہ یہی ڈرلگتا ہے کہ دکانداربڑے یا چھوٹے جانور کے گوشت کے چکر میں کہیں مرا ہوا گدھا ہی کاٹ کر نہ پکڑا دے۔

(جاری ہے)

مرغی والے کے پاس جاؤ تو وہ زیادہ گوشت خریدنے پر قائل کرتا ہے ۔مرغی والا درست نیت سے کچھ پڑھ کر حلال کرتا ہے یا مری ہوئی مرغی کے Legپیس بناتا ہے ،یہ بھی دکاندار کی ایمانداری پر منحصر ہے۔حرام حلال گوشت ملنے کی کشمکش آج کل صارفین کی قسمت میں ہے۔مرغی کا دیسی یا ولایتی انڈہ اپنی پہچان کھو چکا ہے۔سرخ مرچیں اصلی ہیں یا اینٹوں کا برادہ اس کا اعتبار نہیں۔آٹا اصل گندم کا ہے یاپرانی روٹیوں کا چھان برادہ ہے یہ پکانے اور کھانے والوں کی پہچان اور ریٹ پر ہے۔کوکنگ آئل ٹھیک ہے یا گندہ ،اس کا لیبیل یا کمپنی اصل ہے یا نقل یہ کسی کو پتہ نہیں۔چائے کی پتی تازی ہے یا ہوٹلوں سے استعمال شدہ رنگ زدہ اس کے لئے تحقیق جاری رہے گی۔پراپرٹی ڈیلرز اور پٹواریوں کی ملی بھگت سے شہر کی گلیاں تنگ سے تنگ تر ہو چکی ہیں ہمارے چند شہروں کی چندگلیاں اتنی تنگ ہیں کہ وہاں سائیکل تک چلا کر نہیں جا سکتے۔زمین فروش اتنے ضمیر فروش ہو گئے ہیں کہ غریبوں کو فرضی زمین یا پلاٹ کی رجسٹری تھما کر اسے فٹ پا تھ پر لا کھڑا کرتے ہیں۔شہر میں ہزاروں ٹریفک پولیس افراد کی موجودگی کے باوجود شہر کے تمام چوک پر ٹریفک جام رہتی ہے۔پورے پاکستان کے ہر شہر کی مین شاہراہ ہر دم بند ملے گی۔دیکھا جائے تو ٹریفک جام ہونے کی تین اہم وجوہات ہیں جن میں سے سب سے پہلے ہر فرد کی انفرادی طور پر بے صبری والی عادت ہے۔دوسرے نمبر پر کئی جگہ ٹریفک وارڈن کا نہ ہونا اور تیسرے نمبر پر چوک یا سڑک کا تنگ ہونا شامل ہے۔
کئی لوگ سرخ بتی کا اشارہ توڑ کر نکل جاتے ہیں مگر کوئی انہیں روکتا نہیں۔اس سے کہیں بڑا جرم شاید سیٹ بیلٹ نہ پہننا ہے ،ہم نے اس بات کو خود بھی نوٹ کیا ہے کہ آپ نے اگر سیٹ بیلٹ نہیں پہنا تو اسلام آباد پولیس تین سو روپیہ کا چلان ضرور کرے گی۔اس چلان کو چھڑانے کے لئے اتنے جدید دور میں کوئی آپ سے نقد پیسے نہیں لے گا بلکہ آپ کو بینک کی طویل لائن میں لگ کر پیسے جمع کرانے ہونگے۔علاوہ ازیں جمع شدہ رقم کی رسیدی لیکر ٹریفک پولیس کے چلان آفس کے دھکے بھی کھانا ہونگے۔
گاڑیوں کے لئے گیس ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔حکومت بھی کیا کرے اس برفانی موسم میں نہ صرف گھروں کے لئے گیس کی سپلائی کم ہے بلکہ کئی اہم ترین ملکی فیکٹریوں میں بھی گیس نہ ہونے سے کام
ٹھپ ہے۔پرائیویٹ اور پبلک گاڑیوں میں گیس نہ ملنے سے گویا زندگی کا پہیہ جام ہوجاتا ہے۔جہاں گیس ملتی ہے وہاں کئی کئی کلو میٹرز کی لائین ہوتی ہے یا پمپ پر گیس کا پریشر بہت ہی کم ہوتا ہے۔انرجی کرائسز کی وجہ سے جہاں حکومت عوام کوگیس جیسی سہولیات دینے سے قاصر ہے وہیں صارفین بھی گیس سلنڈر یا لکڑیاں جلانے پر مجبور ہیں۔گھروالوں سے شدید ٹھنڈ میں چائے کی فرمائش کریں تو گھر بدر ہونے کا خدشہ سر پر سوار رہتا ہے۔روٹیاں لینے تندور جاؤ تو وہاں بجلی کے بل جمع کرانے سے بڑی لائین ہوتی ہے پھر وہاں تندور پر بیٹھ کر پرانے اخبارات کے سارے تراشے پڑھ پڑھ کر بھی گھر جانے تک روٹی ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔گیس اتنی کم کہ روٹی گرم کرو تو سالن ٹھنڈا یا سالن گرم کرو تو روٹی ٹھنڈی۔ٹی وی لگائیں تو محکمہ گیس کی طرف سے اشتہار آ رہا ہوتا ہے کہ” گیس کم استعمال کرو،اگر آج گیس بچا لی تو گرمیوں میں ملے گی وغیرہ وغیرہ“۔
ہر پاکستانی سے پوچھو تو یہی بات کرے گا کہ مہینے بعد تنخواہ ملتی ہے لیکن ایک دن میں ختم ہو جاتی ہے۔اب یہ رزق میں برکت ختم ہونے والی بات ہے یا مہنگائی کے زور آور ہونے کی نشانی یہ پوائنٹ سوچنے والا ہے۔ہر جگہ کمیشن مافیا راج کر رہا ہے۔کمیشن اور سود لینے والے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں لیکن وہ ہوس میں اس گوالے کا واقعہ بھول چکے ہیں جو دودھ میں پانی ملاتا تھا ،پھر ایک دن وہی پانی سیلاب بن کر آیا اور ساری بھینسیں بہا کر لے گیا۔ہماری ٹرینیں اتنی لیٹ ہوتی ہیں کہ ان سے پہلے پیدل بندہ اپنے مطلوبہ اسٹیشن پر پہنچ جاتا ہے۔ہماری ٹرینوں کے راستے اتنے آزاد کے کبھی کبھی ٹرین کے سامنے کوئی رکشہ یا بس سامنے سے آ ٹکراتی ہے۔اس پر بھی کئی سالوں سے کام جاری ہے۔
ہماری قوم بلاشبہ بہت ہی عظیم اور مظلوم ہے کیونکہ امریکہ کی وجہ سے مشرف کے زمانے سے لیکر اب تک ہماری قوم خواہ مخواہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔دہشت گرد ملک دشمن عناصر نے ہمارے ملک میں نیشنل ، انٹرنیشنل گیمز کے اجتماعات اور خوشی وغم کی محافل میں دھماکہ کرنے کا گویا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔جہاں چند لوگ جمع ہوئے وہی ظالم اپنا کام کر دکھاتے ہیں۔ابھی جب یہ کالم کمپائل کر رہا تھا تو پشاور کے تبلیغی مرکز میں کسی بدنصیب اور کم بخت نے دھماکہ کر کے کئی مظلوم اور بے گناہ مذہبی افراد کو شہید کر دیا۔دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی کے لئے اعتزاز جیسے بہادربچے اور چوہدری اسلم جیسے نڈرپولیس آفیسرر شہید ہو کر دہشت گردوں کے منہ پر طمانچہ بھی مارتے ہیں لیکن ملک دشمن ایسے ہیں کہ ڈھٹائی سے اپنی ظالمانہ کاروائیوں میں مصروف عمل رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ دہشت گردوں کو نیست و نابود کرے آمین۔
ہمارے ملک کے زیادہ افراد غریب لیکن محنتی ہیں۔ہمارے دفاتر میں اکثر افراد کرپٹ، کام چور اور خانہ پُری کرنے والے ہیں تبھی تو ملک میں ترقی کی شرح بہت ہی کم ہے۔قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی جیسے پلیٹ فارم پر ماسوائے چند اہل افراد کے باقی نا اہل اور نالائق لوگ عوام کے مغز پر سوار ہو کر ان کا بیٹرہ غرق کرتے ہیں۔یہاں ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں،ہر پانچ سال بعد نئے ٹینڈر اور نئے ٹھیکے شروع ہوتے ہیں ۔کچھ کام مکمل ہوتے ہیں اور زیادہ کام ٹھیکیداروں کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ ایمانداری سے مکمل کریں یا پیسہ ہضم کر کے اگلی حکومت میں نئی فرم کے نام سے ٹھیکہ یا ٹینڈر لینے میں کامیاب ہو جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :