معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کیسے؟

جمعرات 16 جنوری 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے (جس کے گھر کی معاشی صورت حال اچھی ہو وہاں کے جھلے بھی سیانے ہوتے ہیں) صدیوں سے یہ معقولہ زد عام ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ جن ملکوں کی معاشی صورت حال اچھی ہے ان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی حالت بھی بہتر ہے اگر دیکھا جائے تو دنیا کا سب سے بڑا مسلہ ہی معاس کا ہے کیونکہ غربت و افلاس کسی بھی سزا سے کم نہیں معاشی بہتری کے لئے امن و امان کا ہونا ضروری ہے بد امن معاشروں سے سرمایہ ایسے غائب ہوتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور اس وقت دنیا بھر میں جس مسلے کو سب سے زیادہ توجہ اور اہمیت حاصل ہے اسے معاشی مسلہ کہا جا رہا ہے ،حکومتیں اور افراد اسی ایک مسلے کی کوکھ سے جنم لینے والے دیگر مسائل کے خاتمے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں ، معاشی مسلے نے اس وقت دنیا بھر کو پریشان کر رکھا ہے اور دنیا اس مسلے سے عہدہ براہ ہونے کے لیے ہر وہ اقدامات اٹھانے کے لیے کوشش کر رہی ہے جس سے وہ معاشی بحران سے نکل سکے ،دنیا اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ معاشی مسلہ امن و امان کے ساتھ جڑا ہے اس لئے امن و امان کی بہتری کے لیے سب کو مل کر اقدمات اٹھانے ہوں گے۔

(جاری ہے)

دنیا اس وقت عالمی گاوں بن چکی ہے اس لئے اب کسی ایک ملک میں افراتفری امن و امن کی ابتر صورت حال صرف اس ملک کا مسلہ نہیں بلکہ رہا اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے۔اس عالمی گاوں کا پاکستان بھی ایک اہم حصہ ہے جس کے حالات کے بارئے دنیا نہ صرف تشویش کا شکار رہتی ہے بلکہ یہاں کس طرح بہتری آسکتی ہے پر تجزئے بھی سامنے آتے رہتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں عوامل کو بہتر کرنے سے پاکستان کے حالات اچھے ہو سکتے ہیں، حال ہی میں مالیاتی کریڈٹ ریٹنگ کی عالمی ایجنسی موڈیز نے کہا ہے کہ پاکستان کے اندر جاری غیر یقینی سیاسی صورتحال کے ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑیں گے ،جبکہ ایک رپورٹ میں ہمیں بتایا جا رہا کہ پاکستان میں امن وامان کی خراب صورت حال، عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، ملک کے بڑے حصے میں آنے والے سیلاب، بجلی اور قدرتی گیس کی شدید قلت شرح نمو میں کمی کی بڑی وجوہات ہیں۔پاکستان کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں پر بجلی اور قدرتی گیس کی شدید قلت نے صنعتی پیداوار بالخصوص ٹیکسٹائل اور کھاد کی صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔رپورٹ میں بجلی اور قدرتی گیس کی قلت پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کے لیے تجاویز بھی دی گئی ہیں جس میں بجلی کی چوری کو روکنے کے علاوہ بجلی ضائع ہونے سے بچانے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سیاسی میدان میں صف بندی، محاذ آرائی وسط مدتی انتخابات کا شوشہ کاروبار طبقے کے طوطے اڑانے کے لیے کافی ہے۔ امن و امان کی بدتر حالت عدم استحکام اور بے یقینی کے تاثر کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ عوام ہر وقت کسی نئے سیاسی یا بم دھماکے سے ڈرے سہمے رہتے ہیں اور معیشت کو روز ایک زور کا جھٹکا لگ رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ جب بھی کوئی منفی سیاسی واقعہ ہوتا ہے۔ سٹاک مارکیٹ کو یہ جھٹکے سہنا پڑتے ہیں، امن و امان کی بگڑتی صورتحال غرض ہر طرف افراتفری کی خبروں سے سرمایہ کار پریشان ہوتا ہے اور یوں میعشت منفی اشاریوں میں داخل ہو جاتی ہے ۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کے جیسے جیسے بلدیاتی الیکشن قریب آئیں گے بے یقینی اور افراتفری بڑھے گی۔ آنے والے دنوں میں محاذآرائی میں اضافہ ہوگا۔ آئے دن ہونے والے ہنگاموں اور کاروبار کی بندش سے اربوں روپے یومیہ نقصان ہوتا ہے جس میں حکومت کو ٹیکس وصولی کی مد میں ہونے والا نقصان بھی شامل ہے۔ پیداواری نقصان اس کے علاوہ ہے۔ چھوٹے کاروباری اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو سب سے زیادہ تکلیف اور پریشانی اس وقت ہوتہ ہے جب مذیبی گروہ آئے دن شہر کی سڑکیں اور کاروباری مراکز اجتجاج کے نام پر بند کر دیتے ہیں اور یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آرہا کیونکہ حکومت ان مسلح گروہوں کے آگے بے بس دکھائی دیتی ہے بلکہ درپردہ ان کی ہمایت بھی نظر آتی جو وہ کھلے عام دنیا کو للکارتے پھرتے ہیں۔ماہرین اس پر متفق ہیں کے سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معاشی ترقی کا تصور ممکن نہیں۔ اگر سیاسی بے یقینی برقرار رہتی ہے تو مشکلات بھی بڑھیں گی اور معیشت سیاست کے دلدل میں پھنسی رہیگی۔یہ ساری صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈر مل بیٹھ کر سوچیں کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں وہ کیا ہیں اور ان کو دور کسے کیا جاسکتا ہے؟ اس کے ساتھ ہی میڈیا کو بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہوئے دیکھنا چاہے کہ ملکی سطع کی کسی ایک منفی خبر کی اشاعت سے ملکی معیشت کا پٹھہ کیسے بیٹھ جاتا ہے جبکہ بیرون ممالک سے آنے والی سرمایہ کاری بھی رک جاتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے جس پر سنجیدگی سے سوچا جانا چاہیے کہ ملک کو مسلح مذہبی گروں سے نجات دلانے کے لئے حکومت کو دیر پا اقدامات اٹھانے ہوں گے اگر حکومت نے ایسا نہ کیا تو یہاں کوئی ملک سرمایہ کاری کرنے نہیں آئے گا۔۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے ثمرات ابھی تک سامنے نہیںآ سکے گو کہ حکومت سر توڑ کوشش کر رہی ہ حکومت وک دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ ایسی معاشی پالیسیاں بنا رہی ہے جس سے عام آدمی کو فائدہ پہنچنے کے ساتھ حالات سازگار ہیں کہ سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ لگانے کے لئے تیار ہوں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :