یہ تشدد آخر کب اور کیسے ختم ہو گا؟

جمعرات 16 جنوری 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

ہمارا وطن عزیز گزشتہ تین د ھائیوں سے ایک نہ ختم ہونے والے تشدد کی زد میں ہے۔1980 کے بعد کی ملکی تاریخ بہت ہی خون آلودہ ہے۔ملک کا کون سا ایسا حصہ ہے جہاں انسانی خون نہ بہایا گیا ہو،اور بد قسمتی سے بعض حصوں میں انسانی،بلکہ پاکستانی شہریوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ان میں کراچی شہر قا بل ذکر ہے۔بانی پاکستان کا اپنا شہر۔
یہ انسانی خون مذہب کے نام پر بھی بہایا جا رہا ہے،لسانی فسادات کے نام پر بھی۔انتقام اور نفرت کے وہ شعلے جو غلط فیصلوں کی بدولت بھڑکے تھے آج طول و عرض میں آگ لگائے ہوئے ہیں۔ کسی بھی صوبے میں امن آمان اور آمن و آتشی کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ بریکنگ نیوز کے نام پر قتل و غارت اور نت نئی دہشت گردی کی واردتوں کے پھیلانے کا مقابلہ نیوز چینلز پر جاری ہے۔

(جاری ہے)

خواتین کی بے حرمتی کی خبریں بھی اب بریکنگ نیوز کے رنگ میں چلا کر اخلاقی اقدار اور تمام ضابط اخلاق کی د ھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔لیکن کوئی نہیں پوچھنے والا۔تشدد کی ایک ایسی لہر پورے ملک میں آئی ہوئی ہے کہ خدا کی پناہ۔تشدد ایک ایسا فعل ہے جس کی کسی بھی مہذب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔اور خاص کر وہ ملک جس کے آئین میں اسلام کو سرکاری مذ ہب قرار دیا گیا ہو ،وہاں اگر تشدد روز کا معمول بن جائے تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے۔تشدد کا راستہ ان سو سائٹیوں میں ا ختیار کیا جاتا ہے جہاں انصاف اور عدل کا خون ہو جائے اور جنگل کے قا نون کی سی کیفیت جنم لے لے۔تشدد ایک بیمار سو سائٹی کی نشاندہی کرتا ہے۔ایسی سو سائٹی جہاں اخلاقیات دم توڑ چکی ہوتی ہیں،جہاں انسانی قدریں مٹی میں مل چکی ہوتی ہیں اور صرف تحریروں اور تقریروں تک محدود رہ جاتی ہیں۔نہ ختم ہونے والا تشدد اگر کسی معاشرہ میں ناسور بن کر پھیل جاتا ہے تواس کی بہت سی و جوہات ہوتی ہیں۔ انفرادی اورا جتماعی دونوں طرح کی ۔ ا نفرادی وہ جن میں ایک طاقت ور ،اپنے پیسے اور اثرو رسوخ کی بنیاد پر کمزوروں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ڈھاتا ہے۔اور دو سرا جس سرکاری اداروں اور تھانوں میں مرضی کے بیانات کے لئے خوفناک تشدد کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔ ہر سال پاکستان میں تشدد کے ہزاروں المناک واقعات جنم لیتے ہیں، اخبارات کی زینت بنتے ہیں،بعض تو اس قدر لرزہ خیز ہوتے ہیں کہ ان کو بیان کرنا تو درکنار ذہن میں لانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔تمام سرکاری، ریاستی کمیشن اور ا نکوائریاں بیکار جاتی ہیں۔عدل و انصاف کے بلند بانگ د عوئے دھرے کے د ھرے رہ جاتے ہیں،تشدد کی زد میں مظلوم عورتیں، غریب اور کمزور طبقات خاص طور پر ہیں، لیکن ان کی کو ئی شنوا ئی نہیں ہوتی۔ہر سال ظلم و ستم کے سیاہ ایسے اعدادو شمار ہماری مجموعی بے حسی پر ماتم کناں ہوتے ہیں ڈرون حملے بھی جدید دور میں تشدد کی ایک شکل ہے،جس کی اقوام متحدہ نے بھی مذمت کی ہے۔۔2013 کا سال بھی ایسے ہی سالوں میں شمار ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال پاکستان میں فرقہ وارانہ،لسانی اور دیگر پر تشدد کار وائیوں میں7170 افراد اپنی جانو ں سے محروم ہوئے۔8746 افراد زخمی ہوئے تھے۔ان میں 6982 افراد صرف فرقہ وارانہ، ٹارگٹ کلنگ ،بم د ہماکوں اور خودکش حملوں سمیت دیگر تشدد کی کار وائیوں کے نتیجہ میں ہلاک ہوئے،188ڈرون حملوں کے نتیجہ میں جس میں بیرون ممالک کے دہشت گرد بھی شامل تھے۔ا یشین ہومن رائٹس کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پر تشدد کے درج ذیل واقعات ہوئے تھے۔فرقہ وارانہ اور ٹارگٹ کلنگ کے491 حملے ہوئے جن میں2350 افراد ہلاک ہوئے جبکہ3786افراد زخمی ہوئے۔دہشت گردی کے ہونے والے حملوں کی تعداد250تھی جبکہ ان حملوں میں2286 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ د ھو بیٹھے۔1609 زخمی ہوئے۔اسی طرح سر کاری اداروں کی مختلف کار وائیوں کے دوران1526 افراد ہلاک ہوئے اور 1746 افراد زخمی ہوئے تھے۔2013میں خودکش حملوں کی تعداد 38تھی اور ان میں820افراد ہلاک ہوئے اور 1445 افراد زخمی ہوئے۔ڈرون حملوں کے 25 واقعات میں 188 ہلاک اور 160 افراد زخمی ہوئے۔مذہب کے سیاست میں ملوث ہونے کے بعد یہ صرف ایک سال کے اعداد و شمار ہیں اگر گزشتہ تین د ہا ئیوں کے عداد و شمار کو جمع کیا جائے تو شائد وہ تعداد کشمیر میں ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ ہو جائے۔بانی پا کستان نے امن و آمان کو ہر حکومت کا اولین فریضہ قرار دیا تھا، جبکہ موجودہ اور سابقہ تمام سول و فوجی حکومتوں نے اس فریضہ کوسب سے آخر پر رکھا اور کبھی بھی سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے۔ایک طرف امن و آمان کی بد ترین صورت حال کی نشاندہی ہوتی ہے اور دوسری طرف ماضی کی حکومتوں کے غلط ریاستی فیصلوں کے نتیجہ میں آج د نیا میں نہ صرف تشخص مجروح ہوا بلکہ اندرونی طور پر بھی کمزور سے کمزور ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔عام قتل اور گھریلو تشدد کے واقعات ان میں شامل نہیں۔ان کا بھی اگر موازنہ کیا جائے تو ہم کسی بھی طور پر ایک اسلامی مملکت کی عکاسی نہیں کرتے۔یہ تمام پرتشدد کار وائیاں ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت ر کھتے ہیں۔ایک عام شہری کی جان و مال کی حفاظت حکومت وقت کا اولین فریضہ ہے۔65برسوں کے بعد بھی اگر پہلا فر یضہ ہی نبھانا مشکل ہو ر ہا ہے تو ستاروں پر کمند ڈالنے کی باتیں کب اور کیونکر حقیقت کا روپ دھاریں گی؟؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :