دُو ر رہو

جمعرات 16 جنوری 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

سمجھ نہیں آتی کہ اگر کوئی دِل جلا گیس سٹیشن پر پہنچ کر گاڑی روک کر گیس سٹیشن کو گلے لگا کر یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ بھلے مانسادنیا سے کنارہ کشی کا چلہ کیوں طویل سے طویل کرتا چلا جا رہا ہے تو اس پر گیس سٹیشن مالکان کو اعتراض کیوں ہے۔پہلے پہل توصارفین کو یہ اطلاع دینے کے لئے کہ ہم روزے سے ہیں گیس سٹیشن مالکان ایک نازک سا فیتہ گیس سٹیشن کے گرد لپیٹ دیتے تھے ، یہ اس بات کا اشارہ ہوتا تھا کہ گیس سٹیشن روزے سے ہے۔صارف سمجھ جاتے اور واپس لوٹ آتے۔پھر نہ جانے ان خالی گاڑیوں سے گیس سٹیشن کے مالکان کو کیا خوف آنا شروع ہو گیا کہ ایک لمبی سی کنات تان دی۔کوئی ایسی خبر کسی اخبار میں دیکھی تو نہیں کہ کسی گاڑی والے نے کنات پھاڑ کر گاڑی گیس سٹیشن کے اندر زبردستی داخل کر دی ہو،پھر نہ جانے کیا سوچ کر گیس سٹیشن مالکان احتیاطی تدابیر کے تحت کنات کی بجائے ٹوٹی ہوئی کرسیاں، ٹوٹے ہوئے میز اور بوسیدہ ڈسک کھڑے کرنے لگے۔

(جاری ہے)

بات پھر آگے بڑھی اور گیس سٹیشن کی بیرونی حدود کے گرد مٹی سے بھری ہوئی بوریاں کھڑی کی جا نے لگیں۔ گیس سٹیشن نہ ہوگیا پولیس لائن ہو گئی۔اب سنا ہے گیس سٹیشن کی سرحد پر خندق کھودے جانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔کھود لیں ہمیں کیا۔اگر کوئی قسمت کا مارا گیس سٹیشن کے قریب گاڑی کھڑی کرکے بھولی بسری یادوں کو تازہ کرنا چاہتا ہے ، گیس پائپ کو تھام کر یہ گنگنانا چاہتا کہ لوٹ آؤ میرے پردیسی بہار آئی ہے تو اس پر گیس سٹیشن کے مالکان کوروز بروز سیکورٹی بڑھاتے جانے کی کیوں ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔اس طرح توچنگ چی رکشوں والے بھی بسوں کی ہڑتال کے دوران سواریوں کے ساتھ نہیں کرتے جیسے گیس مالکان دُکھ درد کے مارے صارفین کے ساتھ کر رہے ہیں۔اللہ کے بندو کسی ہنس مکھ ملازم کو گیس پمپ پر بٹھاؤ جو صارف کو ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس پلائے ا ورپھر کھویا ملائی میں بھگوئی زبان سے چکنے چپڑے الفاظ سے حوصلہ افزائی کرے کہ موسم ایک سے نہیں رہتے سردیوں کے بعد گرمیوں کو بھی آنا ہے۔دل چھوٹا نہ کریں ۔ گیس کا نمونیہ عارضی ہے۔لیکن دلاسہ تو رہا ایک طرف وہ تو اب خندق کھود نے کے بعد اس میں اسلحہ بردار سیکورٹی گارڈ بھی لٹانا چاہتے ہیں۔سنا ہے آجکل بچوں کے ٹور تاریخی مقامات پر جانے کی بجائے گیس پمپوں پر جا رہے ہیں۔اساتذہ انہیں گیس پمپوں کی حدود سے باہر کھڑا کر کے بتاتے ہیں کہ یہاں سے کسی زمانے میں گاڑیاں گیس بھروایا کرتی تھیں۔بچے سوال کرتے ہیں کہ ٹیچر یہ بنچ پر روبوٹ کس لئے بٹھایا گیا ہے۔ ٹیچر وضاحت کرتے ہیں کہ یہ روبوٹ نہیں یہ گیس پمپ کا ملازم ہے اور ڈائجسٹ کو منہ دے کر اس لئے خاموش بیٹھا ہے کہ رعب ہی نہ جاتا رہے اور لوگ شہ پا کر گیس پمپ کی حدود ہی میں داخل نہ ہو جائیں۔ذرا گیس صارفین کے دل کے ارمانوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان کی بے زبان گاڑیوں کے ارمانوں پر نظر ڈالئے۔آجکل جس گاڑی پر نظر پڑتی ہے وہی خاموشی کی زبان میں گاتی نظر آتی ہے۔

کبھی جھوموں ، کبھی ناچوں کبھی لہراؤں خوشی سے

آپ سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ گاڑیاں کاہے کو یہ نغمے گنگناتی پھر رہی ہیں۔یہ بات سمجھنے سے پہلے آپ کو ’تریوڑ‘ کا مفہوم سمجھانا پڑے گا۔تریوڑ پرانے زمانے کی مائیں اپنے گھبرو بیٹوں کو اُس وقت پلاتی تھیں جب گندم کاٹنے کا سیزن شروع ہوتا تھا۔تریوڑ کا استعمال اور اس کے فوائد جاننے سے پہلے چلو ’تریوڑ ‘ بنانے کی ترکیب بھی سیکھتے جائیے۔ تریوڑ دیسی گھی میں شکر ڈال کر تھوڑا سا پانی ملا کر تڑکا لگانے سے تیار ہو جاتی ہے۔تریوڑ پلانے کا مقصد معدے کی خشکی دور کرنا ہوتا تھا۔یہ نسخہ آپ اور میرے لئے نہیں، یہ اُن لوگوں کے لئے تھا جنہوں نے شام کو دوکنال گندم کاٹنا ہوتی تھی ، ہمارے لئے ککنگ آئل ہی ٹھیک ہے۔ہاں تو بات ہو رہی تھی ، ان لڈیاں ڈالتی خوشیاں مناتی چھوٹی بڑی گاڑیوں کی جنہیں حکیموں(مستریوں) کے کہنے کے باوجود خشکی سے نجات کے لئے مالکان نے کبھی دو چار لٹر پٹرول بھی نہیں سُنگھایا ہوتا،آج کل یہ گاڑیوں پٹرول نہیں بلکہ ’تریوڑ‘ پی رہی ہیں۔کیا پتہ یہ بے زبان مخلوق بھی دعا کرتی ہو کہ دو چارہ ماہ مزید گیس کی بندش رہے تاکہ خشکی کے پرانے کس بل نکل جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :