شرم مگر ان کو نہیں آتی

جمعرات 16 جنوری 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ہماری بد قسمتی کہ منافقوں اور ضمیر فروشوں کے لئے یہ سر زمین ہمیشہ زرخیز رہی جس کی وجہ سے ان کی ایک کثیر تعداد ہمیشہ غیروں کے ڈالروں پر پلتے ان کی حمایت میں قصیدے اور اپنے لوگوں کے خلاف زبان درازی کر نے پر فخر محسوس کرتے اپنے آقا و مالک کے ہر ظلم کو قابل تحسین اقدام اور ان کے ظلم سہتے معصوم اور بے گناہ لوگوں پر دہشت گر دی کے فتوے صادر کرنا ان کا فرض اولین رہا ۔ڈالر کی چمک نے جن کی آنکھوں کی بینائی بھی زائل کر دی کہ جس کی وجہ سے اندھوں، گونگوں اور بہروں کی طرح صرف وہی بولتے، کہتے اور لکھتے ہیں جن کا انہیں حکم دیا جا تا ہے۔ ڈرون حملوں میں معصوم بچوں ،عورتوں اور بزرگوں کی شہادت بھی ان ”پلید“ لوگوں کی غلیظ نظر میں دہشت گردی کی جنگ میں مرنے والے کسی دہشت گرد سے کم نہ ہوتی پھرجس کے جواب میں ایسی ایسی عجیب دلیلیں ان کے پاس ہوتی ہیں کہ انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ آخر مسلمان تو دور کی بات کیا یہ انسان بھی ہیں؟کس ڈھٹائی کے ساتھ یہ ڈرون حملوں میں شہید ہو نے والے انسانوں پر دہشت گرد کی مہر ثبت کر کے اپنے ابلیسی آقا کو خوش کر نے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔

(جاری ہے)

دوسری طرف سے ان حملوں کو ظالمانہ،بزدلانہ کا روائی اور اس میں مر نے والے اکثر معصوموں کی شہادت پر صداء احتجاج بلند کر نے والوں کو یہ طبقہ جنونی اور مذہبی انتہا پسند قرار دے کر اپنے مردہ ضمیر کو بے غیرتی کی ”لوری“ سُنا کے اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ بھلا ہو ڈرون حملوں پر کام کر نے والی امریکی فضائیہ کی کی اہلکار”ہیدر لائنباع “کا جوڈرون حملوں میں مارے جانے والے معصوم لوگوں کی چیخ و پکار سن کے اس غلامی سے آزاد ہوئی جس نے اپنے ایک مضمون میں ضمیر فروشوں کے جھوٹ کو بے نقاب کیا۔یہ سوال کرتی ہے ضمیر فروشوں اوران کے آقا و مالک سے کہ تم نے ایک ہیل فائر میزائل سے کتنی خواتین اور ان کے بچوں کو زندہ جلتے دیکھا،تم نے کتنے مردوں کو ٹانگیں کٹنے کے بعد لہو لہان حالت میں ایک کھیت کو اپنے ہاتھوں پر چلتے ہوئے پار کرتے دیکھا؟وہ دعویٰ کرتی ہے کہ ڈرون طیارے حفاظت کے لئے نہیں بلکہ ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں ۔ظلم تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے نام پر لڑی جانی والی جنگ کے ان ”پروڈیوسرز“میں سے صرف چند کو ہی معلوم ہے کہ زندہ جاوید لوگوں کو کچھ ہی لمحوں میں زندہ جلا دینے والے اس پروگرام میں حقیقتاََ ہو تا کیا ہے یہاں تک کہ اپنے آپ کو ماہر سمجھنے والے ذمہ داران بھی اس بارے میں غلط معلومات رکھتے ہیں۔عام شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں اعداد و شمار کو یا تو پوشیدہ رکھا جاتا ہے یا پھر یہ ہلاکتیں بہت تھوڑی بتائی جاتی ہیں اور ڈرون طیاروں کی صلاحیتوں پر رپورٹوں کو گھمایا پھرا یا جاتا ہے۔ہیدر لائنباع کے بقول جو بات عوام کو سمجھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ بہترین روشنی اور تھوڑے بادلوں والے دن میں بھی ڈرون سے ملنے والی ویڈیواتنی صاف نہیں ہوتی کہ آپ معلوم کر سکیں کہ ان کیمروں سے نظر آنے والا شخص ہتھیار اٹھائے ہوئے ہے یا نہیں،ویڈیو اس قدر دانے دار ہوتی ہے کہ ہمیں اکثر یہی سمجھ نہیں آتی تھی کہ کس کے ہاتھ میں ہتھیار ہے یا بیلچہ؟میں اور میرے ساتھی ڈرون آپریٹر یہی سوچتے رہ جاتے تھے کہ ہم درست لوگوں کو بھی مار رہے ہیں یا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں کام کر نے والے فوجی ملازمت چھوٹنے کے ایک سال بعد ہی خود کشی کر لیتے ہیں جن کے بارے میں خو دکشی کے اعداد و شمار جاری نہیں کئے جاتے اور نہ ہی یہ بتا یا جا تا ہے کہ ڈرون طیارے اڑانے والوں میں سے کتنے لوگوں کو بے خوابی،اضطراب اور افسردگی کے علاج کے لئے بہت زیادہ ادویات دی جاتی ہیں۔
قارئین محترم !امریکی تھنک ٹینک نیو امریکہ فاؤنڈیشن کی حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2004سے اب تک ڈرون حملوں میں مارے جانے 3428افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں 307معصوم شہری اور 334ایسے افرادبھی شامل ہیں جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ۔آپ اندازہ لگائیں کہ سابقہ ڈرون آپریٹر جو اپنے مضمون میں اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ جس ویڈیو کی روشنی میں ہم ڈرون حملہ کرتے ہیں وہ اس قدر خراب ہوتی ہے کہ اس بارے میں ہم کسی حتمی رائے تک پہنچ ہی نہیں پاتے اس کے باوجود امریکی تھنک ٹینک کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں معصوم افراد کی شہادت ایک لمحہ فکریہ ہے ان لوگوں کے لئے جوایک طرف امن مذاکرات کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف انہیں اس سارے خونی کھیل پر مذمت کر نے کی بھی توفیق نہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ بظاہر ”حب الوطنیت“ کا نعرہ لگاتے ڈھکوسلے باز اس گروہ سے اچھے تو یہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو کافر کہلاتے ہیں لیکن معصوم لوگوں کو خون میں نہلادینے والے اس گھناؤنے فعل پر کس بہادری کے ساتھ سچ کہہ گئے ۔ شرم آنی چاہئے اپنے آپ کو دانشور کہلانے والے زر خرید انسان نمادرندں کوجنہوں نے اپنا ضمیرچند ڈالروں کے عوض امریکی آقاؤں کے ہاں گروی رکھ دیا ہے جسکی وجہ سے غیرت اور حمیت نام کی چیزیں ان سے کوسوں دور ہو گئی ہیں اورجب یہ ہی دور ہو جائیں تو پھر ان لوگوں کو اپنے سواء کچھ دکھائی نہیں دیتا پھر ان کے اندر موجود شرم کا عنصر بے غیرتی کی دلدل میں غرق ہو کے اپنی موت آپ مر جا تا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :