”ملزم“ مشرف حاضر ہو؟۔۔۔ مگر!!!

منگل 14 جنوری 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

ہم مزے سے ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔ کسی وردی والے کو شولڈرز لگائے جا رہے تھے۔۔۔ لیکن ہمیں اس میں کیا دلچسپی ہونی تھی۔۔۔ ہمیں تو اپنی پسند کا پروگرام دیکھنا تھالہذا دعا کر رہے تھے کہ جلد سے جلد یہ تقریب ختم ہو۔۔۔ کہ اچانک۔۔۔ٹی وی سکرین سیاہ ہو گئی۔۔۔ ادھر پتا کیا۔۔۔ وہاں سے پتا کیا۔۔۔ کچھ سمجھ نہ آرہی تھی۔۔۔ ابھی گو موگو کی کیفیت میں تھے کہ ۔۔۔ اچانک۔۔۔ ٹی وی سکرین پر کچھ کھسر پھسر ہونا شروع ہوئی۔ ۔۔ پھر ایک آواز گونجی۔۔۔ اور شاید خبر بھی چلنا شروع ہو گئی کہ ۔۔۔ کماندار افواج پاکستان کچھ دیر میں قوم سے خطاب کریں گے۔۔۔ وہ قوم جو خطاب سے زیادہ اس بات پر پریشان تھی کہ ٹی وی کیوں بند ہو گیا ۔۔۔اور پھر اٹھاخ پٹاخ۔۔۔ پکڑ دھکڑ۔۔۔ہوہو ہاہا۔۔۔ کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

(جاری ہے)


تجسس پیدا ہو گیا۔۔۔ کہ یہ پکار کیوں سنائی دی۔۔۔ مژدہ سنایا گیا کہ صاحب کچھ صبر کریں۔۔۔صبر کرنے کے سوا کچھ چارہ بھی نہ تھا۔ ۔۔ پھر آواز گونجی۔۔۔ میرے عزیز ہم وطنو!۔۔۔میں ہوں پرویز مشرف ( بخدا یہ فقرہ کسی فلم سے مستعار نہیں لیا)۔ 99ء کی بات کریں تو اس وقت ہم طالبعلم ہی تھے۔۔۔ اور شاید کچھ زیادہ سمجھ بھی نہیں تھی۔۔۔اور میرے عزیز ہم وطنو کی پکار بھی پہلی دفعہ ہی سنی تھی۔ لیکن بزرگوں کے لیے یہ نئی بات نہ تھی۔۔۔ لیکن جیسے ہی مشرف صاحب ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے۔۔۔ بزرگوں کے چہروں پر۔۔۔ دبی دبی مسکراہٹ دیکھی۔۔۔ آج جب عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اس مسکراہٹ کا جائزہ لیتا ہوں تو ۔۔۔ محسوس ہوتا ہے کہ۔۔۔ وہ مسکراہٹ آسودگی لیے ہوئے تھی۔۔۔ کیسی آسودگی ؟؟؟ یہ تب ہمیں پتا نہیں تھا اور اب بھی کچھ خاص پتا نہیں( یہ الگ بات کہ جو پتا لگاوہ کہہ بھی ڈالیں تو نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی شمار ہو گا)۔ 99ء میں ایک بزرگ سے دریافت کیا تھا۔۔۔۔ کہ بابا جی۔۔۔ یہ دبی دبی سی مسکراہٹ۔۔۔ یہ چھپا چھپا تبسم ۔۔۔۔آخر کس لیے؟ تو ان کا جواب تھاکہ۔۔۔چھوٹے میاں۔۔۔تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ میاں صاحب فوج پر اعتبار نہیں کرتے( یہ الگ بات کہ وہ ایوان اقتدار کی راہداریوں میں فوج کی ہی مدد سے پہنچے)لہذا انہیں ہمیشہ ایک عجیب سا خطرہ رہتا ہے۔ اور جب میاں صاحب نے تیسرے نمبر کے مشرف کو آرمی چیف بنایا ۔۔۔۔ توتب سے ہی ۔۔۔ میرے دل میں کھٹک تھی کہ ۔۔۔ یہ ساتھ چل نہیں سکے گا۔۔۔ اور آخر کار 12اکتوبر آگیا۔ یہ کہہ کر ۔۔۔ بزرگ کھل کر مسکرائے۔۔۔جیسے کہہ رہے ہوں "لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا"۔
پھر حالات جیسے جیسے واضح ہوئے پتا چلا کہ ۔۔۔مشرف صاحب ہوا کے سنگ اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔۔۔ اور زمین پر انہیں ہوا میں ہی رکھنے کا بندوبست کیا جا رہا تھا۔۔۔ضیاء صاحب عاجزی سے شولڈرز کا بوجھ اٹھانے کو تیار بیٹھے تھے۔ ۔۔اوہ۔۔۔ آپ کہیں ضیاء الحق صاحب تو نہیں سمجھ رہے؟؟؟ ارے نہیں جناب۔۔۔ وہ تو میاں صاحب کے روحانی والد تھے۔۔۔۔ اور وہ تو داعی ملک عدم ہو چکے تھے۔ ۔۔ کیا آپ کو یاد نہیں؟ کہ میاں صاحب کو وہی تو سیاست کے کارزار میں لائے تھے۔۔۔بہر حال یہ ذکر ضیاء الدین صاحب کا ہو رہا ہے۔ ۔۔خیر ۔۔۔ ہوا سے شاید مشرف صاحب نے کوئی تعویز پھینکا کہ سب جرنیل ان کے ہم خیال ہو گئے۔۔۔ ویسے میاں صاحب جیسا زیرک سیاستدان۔۔۔ پتا نہیں کیسے غلطی کر گیا۔۔۔ ان کا خیال تھا کہ تمام کور کمانڈرز سر تسلیم خم کریں گے۔۔۔ لیکن۔۔۔ ایسا ہو نہ سکا۔۔۔اور پانسہ پلٹ گیا۔ تمام کور کمانڈرز نے تب ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لی جب مشرف ابھی ہوا میں ہی تھے۔ ۔۔اور میرے خیال میں مشرف صاحب نے جہاز سے اترتے ہوئے سب سے پہلا فقرہ یہی کہا ہو گا کہ۔۔۔ جینٹلمین۔۔۔ ویل ڈن!۔۔۔بات کچھ لمبی ہو گئی۔۔۔ مختصر کرتے ہیں۔۔۔
مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔۔۔بھنگڑے ڈالے گئے ۔۔۔ شکرانے کے نوافل ادا کیے گئے۔۔۔ (اب پتا نہیں میا ں صاحب کے جانے کے یا مشرف کے آنے کے)۔۔۔انتخابات کا وعدہ ہوا۔۔۔ انتخابات نہیں ہوئے۔۔۔ہم خیال ملے۔۔۔ پھر ق لیگ بن گئی۔۔۔ حکومت بن گئی۔۔۔پارلیمنٹ وجود میں آئی۔۔۔پھر2007ء آیا۔۔۔ ایمرجنسی لگی۔۔۔ ججز نظر بند ہوئے۔۔۔معطل ہوئے۔۔۔ بحال بھی ہوئے۔۔۔ مشرف صاحب صدر بھی بنے۔۔۔ ان کے زیر سایہ جمالی صاحب آئے( یہ اپنے جمالی صاحب جو اب میاں صاحب کے ساتھ ہیں)۔۔۔ شجاعت آئے۔۔۔ گئے۔۔۔ شوکت عزیز آ گئے۔۔۔ یا شاید لائے گئے۔۔۔ (وطن عزیز میں تو اکثر لوگ لائے ہی جاتے ہیں)۔۔۔نگران آئے۔۔۔ نئی حکومت بن گئی۔۔۔ اور آخر کار مشرف صاحب بھی اقتدار سے الگ ہو گئے۔ یاد آیا وہ وردی کافی پہلے اتار چکے تھے۔۔۔ چلے تو شاید وہ تب ہی گئے تھے جب وردی اتاری تھی۔۔۔یہ تھا مختصر جائزہ حالات کا۔۔۔ اس تمام عرصے میں میاں صاحب اس شخص کو کوستے رہے ہوں ہوں گے جن کے مشورے سے وہ مشرف کو تیسرے نمبر سے اوپر لائے تھے۔ ۔۔ ہو گا کوئی مشورہ دینے والا ، خان، چوہدری وغیرہ۔ان تمام واقعات کے درمیان میاں صاحب ڈیل سے انکاری بھی رہے اور سعودی عرب سے لندن اور دوبئی جانے کے لیے اجازت کی درخواستیں بھی دیتے رہے۔ بھئی جب ڈیل ہی نہیں تھی تو اجازت کیسی؟۔۔۔ وہ منظر ۔۔۔ سعوی انٹیلی جنس چیف۔۔۔ پریس کانفرنس اور ان کے ہاتھ میں معائدہ۔۔۔
آج مشرف صاحب زیر عتاب ہیں۔۔۔ باقی تو کوئی انتخابی وعدہ اپنے انجام کو نہ پہنچ سکا۔۔۔ لیکن مشرف صاحب مل گئے۔۔۔ لوگوں نے منع کیا کہ نہ آؤ پاکستان۔۔۔ مزے سے دنیا کو لیکچر دو۔۔۔ اور پیسہ کماؤ۔۔۔ لیکن فوجی ریٹائرڈ بھی ہو جائے تو فوجی ہی رہتا ہے۔۔۔ وہ واپس آئے شاید انہیں امید تھی۔۔۔ لوگ آئیں گے۔۔۔لیکن وہ پتا نہیں کیوں بھول گئے۔۔۔ کہ ۔۔۔ یہاں وہ "کوفی"ہیں جن کے دل تو خلوص رکھتے ہیں لیکن ان کی تلواریں نیام سے باہر نہیں نکلتیں۔۔۔یہ لوگ چوک پر کھڑے ہو کر گھنٹوں مداری کا تماشا دیکھ لیں گے۔۔۔ لیکن دل میں ہمدردی کے باوجود مدد کو نہیں آئیں گے۔۔۔ شاید یہ مشرف صاحب نہ سمجھ سکے۔۔۔ خیر مقدمات قائم ہوئے۔۔۔ اور خلاصی بھی ہوتی گئی۔۔۔ حکومت پریشان ہوگئی۔۔۔ تدبیر سوچی گئی۔۔۔ اور مشراء نے کہا "غدار " بنا دو۔۔۔ غدار بنا دیا گیا۔۔۔ جس کو خود تیسرے نمبر سے اوپر لائے۔۔۔ جو مسلح افواج کا سربراہ رہا ۔۔۔ جس نے تین جنگیں لڑیں۔۔۔ جس کے بارے میں کہا گیا کہ دشمن کی حدود میں گھس کر رات گزار کے آیا۔۔ ۔(جس کا اعتراف دشمن نے کیا)۔ وہ غدار ٹھہرا۔۔۔ کیا ایک مشرف غدار؟؟؟؟؟ موجودہ پارلیمنٹ کے 45%سے زائد اراکین جو مشرف کے حواری تھے۔۔۔ وہ غدار نہیں؟ اگر نہیں تو انہوں نے کون سا پاکیزہ لباس زیب تن کر لیا کہ محب وطن ہو گئے(کیا ان کی محب الوطنی کی تصدیق کے لیے کافی ہے کہ وہ حکومتی پارٹی میں شامل ہو گئے)۔۔۔ تمام کور کمانڈرز جنہوں نے 99ء میں اپنے چیف کی جان بچائی۔۔۔ کیا وہ بھی غدار؟؟؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں۔۔۔ اور اگر ہیں تو پھر کہیں انہیں بھی غداری کے مقدمے کا سامنا ہے یا نہیں؟تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور جوان جو مشرف کی کمان میں خدمات انجام دیتے رہے۔۔۔ اور مشرف کے احکامات مانتے رہے ۔۔۔ کیا وہ سب بھی غدار؟؟؟ اگر ہاں! تو پھر آپ پوری فوج کا مورال پست کر رہے ہیں۔۔۔ اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟۔۔۔جس چاک و چوبند دستے نے مشرف کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔۔۔ کیا اس نے غلط گارڈ آف آنر پیش کیا؟ کیا وہ اپنے دلوں میں مشرف کو غدار کہہ رہے ہوں گے؟میں اس حق میں ہوں۔۔۔ کہ ۔۔۔ چلائیں مقدمہ۔۔۔اور ایک آمر۔۔۔ (چاہے جمہوری آمر ہو یا فوجی آمر) کو ایسی سخت سزا دیں جو نشانِ عبرت بن جائے۔۔۔ لیکن آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنے والوں کو بھی نشانِ عبرت بنائیں۔۔۔ چاہے آپ کی حکومت ہی کیوں نہ ختم ہو جائے۔۔۔03نومبر اور 12اکتوبر کا فرق مٹا ڈالیں۔۔۔ ہمت کریں۔۔۔ ایسا نہ کر کے آپ آئندہ کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔۔۔ دوبارہ اس ملک میں اقتدار کا تختہ الٹا گیا اور ایمرجنسی نہ لگی تو کیا آپ اس کو جائز قرار دیں گے؟ آپ نے تو خود ہی فیصلہ کر دیا کہ اقتدار الٹنا جرم نہیں ایمرجنسی لگانا جرم ٹھہرا۔۔۔ تو مستقبل کے آمروں سن لو۔۔۔ اقتدار کا تختہ الٹنا جرم نہیں ۔۔۔ تمہارا راستہ صاف۔۔۔بس ایمرجنسی نہ لگانا تو کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔۔۔عقل دنگ ہے ۔۔۔ ایک جمہوری حکومت ۔۔۔ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کو جرم نہیں سمجھتی ۔۔۔اوہ ۔۔ ۔ یاد آیا۔۔۔ کہیں آپ کو خوف تو نہیں کہ 12اکتوبر کا نام لیا تو آج کی حکومت بھی جائے گی؟کیوں کہ آمر کے حواری تو آج جمہوریت کے داعی بن بیٹھے ہیں۔۔۔ویسے داد دیجیے کالے چشمے والے چوہدری بابا کوکہ جس نے اتنی ہمت تو کی کہ خود کو سزا کے لیے پیش کر دیا۔۔۔ کیوں کہ اس نے مشرف کا ساتھ دیا۔۔۔ کیا آپ جرم قبول کرنے والے اس چوہدری بابا کو سزا دیں گے؟آپ ایسا نہیں کریں گے۔۔۔ کیوں کہ چوہدری بابا کے ساتھ آپ کو 45فیصد موجودہ ارکان کی قربانی بھی دینا پڑے گی۔اور ایسی صورت میں اتنے سال بعد ملنے والے اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔۔۔ اسی لیے تو آپ چوہدری بابا کے اقرار جرم کے باوجود ان کا جرم ہی ماننے سے انکاری ہیں۔۔۔ ویسے اگر آپ 12اکتوبر سے کاروائی کی اخلاقی جرات پیدا کر لیں تو قوی امید ہے کہ آپ کا یہ اقدام دوبارہ اقتدار دلا سکتا ہے آپ کو۔۔۔ لیکن اتنی اخلاقی جرات آئے کہاں سے۔۔ آخر کو آپ بھی تو پاکستانی سیاستدان ہی ہیں نا۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :