کشمیر…امیروں نے کھوجی ہیں موت کی شاہرائیں!

اتوار 12 جنوری 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

جان بچانے والی ادویات میں مٹی،مصالحوں میں ریت اورزہریلا رنگ،دودھ میں صابن اور اس سب کے اوپر سرکاری میڈیکل کالجوں میں ڈاکٹروں کے سفید کوٹ پہنے ہوئے ”مُنا بھائیوں“ کی موجودگی…آپ کا کشمیر میں استقبال ہے۔
مندرجہ بالا نا قابل یقین باتیں کسی فرضی کہانی کا پلاٹ نہیں ہے بلکہ زمین پر جنت کے نام سے مشہور اور کسی زمانے میں اپنے لوگوں کی دیانت کے لئے جانے جاتے رہے کشمیر کی حقیقت ہے۔اخلاق و قانون کی دھجیاں اڑانے والے یہ” کارنامے“ …ہاں کشمیر کے ہی ہیں جہاں اڈھائی دہائی کے طویل عرصہ تک خون بہاتی رہی بندوقیں کسی حد تک خاموش ہوگئی ہیں مگر موت نے دولت کے پجاریوں کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی باندھ کر ایسی نا قابلِ تصور رشاہراہیں تلاش کی ہیں کہ جن سے بصورتِ دیگر موت کی آمد کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

(جاری ہے)


ایک سرکردہ اور اعلیٰ اختیار والے سرکاری افسر،مشتاق پیر،کے ،کروڑوں روپے کے عوض میڈیکل انٹرنس کے سوالی پرچے افشا کر کے، نالائق اور غیر موذوں لڑکے لڑکیوں کو میڈیکل کالج میں بھرتی کرنے کے انکشاف سے پھیلی سنسنی ابھی قائم ہے۔مشتاق پیر سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ عام کشمیری کا ابھی یہ سوچ سوچ کر ہی پسینہ چھوٹ رہا تھا کہ بیمار ہونے پر اُسے اسب سرکاری اسپتالوں میں کن نالائق ڈاکٹروں سے پالا پڑنے والا ہے اور ان نا معقولوں کے ہاتھوں اسکا کیا حال ہونے والا ہے کہ ایک نئے انکشاف نے ایک نئی سنسنی پھیلا دی۔سرینگر میونسپل کارپوریشن نے گذشتہ دنوں یہ اعلان کر کے سنسنی پھیلا دی کہ دلی کی ”اے ون ایگرو انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ“ نامی مصالحہ بنانے والی کمپنی کی تیار کردہ ہلدی میں ملاوٹ ہے اور کشمیر کی ایک مقامی مصالحہ بنانے والی کمپنی، ”میسرز کنول ایگرو فوڈ انڈسٹریز“،کی جانب سے بازار میں بیچے جانے والے سونف(پِسے ہوئے بادیان)پر رنگ چڑھانے کے لئے ایک ایسا مواد استعمال کیا جاتا ہے کہ جو انسانوں کو کوئی معمولی تکلیف ہی نہیں دے سکتا ہے بلکہ کینسر کے موذی مرض کی وجہ بن سکتا ہے۔لوگوں کو کنول کا یہ مصالحہ استعمال کرنے سے خبردار کرتے ہوئے کارپوریشن کے ہیلتھ افسر،ڈاکٹر شفقت خان،نے انکشاف کیا کہ مذکورہ مصالحے کا کولکتہ کی ایک معتبر لیبارٹری میں تجزیہ کرانے پر اس میں مہلک اور زہریلا مواد موجود پایا گیا ہے۔ڈاکٹرشفقت خان نے کہا کہ میونسپل کارپوریشن نے کنول کا زیر لاٹ نمبرLot No:KA/SP/E-Pkg dated 04/06/20130تیار کردہ سونف کے نمونے تجزیہ کے لئے اٹھائے تو ان میں CarmoisineاورTartrazineجیسے مواد کی موجودگی پائی گئی جو بظاہر کمپنی نے مصالحے پر رنگ چڑھانے کے لئے استعمال کیا ہے۔عوام کے نام جاری ایک تنبیہی بیان میں ڈاکٹر خان نے کہا”عام لوگوں کو اس مصالحے کا استعمال کرنے سے خبردار کرتے ہوئے اس سے فوری پرہیز کرنے کے لئے کہا جاتا ہے اور کمپنی کو بازار میں سے ملاوٹ شدہ مصالحے کا اسٹاک سمیٹ لینے کا حکم دیا گیا ہے“۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں ملاوٹوں کو بہت پہلے انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر پاکر ترقی یافتہ ممالک ان دونوں چیزوں کو ممنوع قرار دے چکے ہیں تاہم ترقی پذیر،غریب اور صحت کے حوالے سے بے خبر لوگوں کے علاقوں میں منافع خوروں کی جانب سے ان مہلک چیزوں کا استعمال جاری ہے کہ اس سے وہ مزید پیسے بچا پاتے ہیں۔
کنول نامی کمپنی کے مصالحے کے بارے میں کولکتہ میں قائم ہندوستان کی معتبر ترین لیبارٹری کی جدید مشینوں نے کیا پایا،یہ ایک عام کشمیری کے لئے انتہائی حیرت انگیز اور اسے سکتے میں ڈال دینے والی بات تھی۔حالانکہ مادیت کے موجودہ دور میں اشیاءِ خوردنی میں ملاوٹ کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی نا قابل یقین لیکن کشمیریوں کے لئے یہ یقین کرنا مشکل ضرور تھا کہ کنول نامی کمپنی بھی انہیں زہر کھلا کر ہی اتنی بڑی ہوگئی ہوگی کہ اسے بڑے بڑے ایوارڈ ملیں۔یاد رہے کہ جنوبی کشمیر کے اسلام آبادقصبہ میں قائم کنول جموں و کشمیر کی ایک مشہور کمپنی ہے جس نے گذشتہ دو ایک دہائیوں کے دوران ایسی ترقی کی ہے کہ جو کشمیر کے بہت کم کاروباری گھرانوں کے نصیب میں پائی گئی ہے۔کمپنی کا موجودہ سالانہ کاروبار ایک سو کروڑ روپے سے اوپر ہے اور اسکے دعویٰ کے مطابق یہ مقامی طور کاروبار کرنے کے علاوہ دنیا کے دیگر 30ممالک میں بھی اپنے مصالحے بیچتی ہے۔کنول کے مصالحوں کے اعتبار کا عالم یہ ہے کہ ”بس نام ہی کافی ہے“۔کشمیر میں مصالحے کا دوسرا نام ہی کنول ہے اور اس زعم میں مبتلا کہ کنول کے خوبصورت لفافے میں بند مصالحہ اعلیٰ معیار کا ہوگا یہاں کاغریب طبقہ بھی اکثر اسی کمپنی کا مصالحہ استعمال کرتا ہے اگرچہ یہ بازار میں موجود دیگر برانڈ ز کے مقابلے میں کافی مہنگا ہے۔بہترین پیکنگ اور زبردست اشتہاری مہم کے ذرئعے کمپنی اپنے مصالحوں کو کم از کم کشمیر میں اتنا مقبول کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ ہر رسوئی میں اسکا مصالحہ موجود رہتا ہے اور عورتیں آپس میں اپنا رعب جمانے کے لئے فخر سے کہتی ہیں کہ وہ کنول مصالحہ استعمال کرتی ہیں۔لیکن جب یہ حقیقت سامنے آگئی کہ کنول کے خوبصورت لفافے میں بند در اصل زہر کی ایک میٹھی پُڑیا ہے تو ظاہر ہے کہ لوگوں میں سنسنی پھیل گئی اور بھروسہ نام کی خستہ عمارت کو ایک اور دھکہ لگا۔
مصالحے میں زہر ملا ہونے کا انکشاف ہونے پر کنول گروپ کے مالک فاروق امین نے اگلے ہی دن سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران سرینگر میونسپل کارپوریشن میں ”مفاد خصوصی“رکھنے والے عناصر کے کنول کے خلاف سازش رچنے کا الزام لگایا اور خود کو دودھ سے نہایا ہوا ثابت کرنے کی کوشش کی مگر کوئی قابل قبول دلیل نہ دے سکے۔اس دوران معلوم ہوا کہ کنول نے بازار سے مذکورہ مصالحے کا سارا اسٹاک واپس سمیٹا تاہم اگلے دن ہی یہ خبر آئی کہ کمپنی کا ایک وکیل میونسپل کارپوریشن میں قانونی دلیلوں سے زیادہ دھونس دباوٴ اور دھمکیوں کے ڈراونے الفاظ کا انبھار لیکر داخل ہوا تھا جس نے کارپوریشن کے افسروں کو ڈرانے کی کوشش کی۔ایک خبررساں ادارے کے اپنی ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا کہ مذکورہ وکیل نے کنول گروپ کی اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ ہونے کی گیدڑ ببکیاں سنا کر افسروں کو لیبارٹری کی رپورٹ کو عام کرنے کی ”غلطی“کی سزا پانے کے لئے تیار رہنے کو کہا۔حالانکہ کارپوریشن اپنی رپورٹ پر قائم ہے ۔جیسا کہ ڈاکٹر شفقت کہتے ہیں”ہم نے نمونوں کی ایک معتبر لیبارٹری کے ذرئعے جانچ کرائی ہے اور اگر لیبارٹری کی رپورٹ غلط ہے تو پھر کنول نے مذکورہ مصالحے کا اسٹاک بازار سے واپس کیوں اٹھایا“۔
کنول کے دئے جھٹکے سے ابھی کشمیری عوام کا ابھرنا باقی ہی ہے کہ لفافہ بند دودھ بیچنے والی کمپنی ”خیبر ایگرو“کے دودھ میں کپڑے دھونے کے صابن اور دیگر مضر صحت مواد کی موجودگی کے انکشاف کا ایک اور بم گرا۔کروڑ پتی ترمبو گروپ کی ایک ذیلی کمپنی خیبر ایگرو کا دودھ کنول کی طرح ہی کشمیر میں خاصا مقبول ہے اور وادی کے اطراف و اکناف میں زیر استعمال ہے۔حالانکہ خیبر گروپ نے ایک بیان میں اپنے دودھ کو ”دودھ“ہی ثابت کرنے کی کوشش کی تاہم کنول گروپ کی طرح ہی یہ کوشش بے وزن اور بے دلیل تھی۔ایک بیان میں کمپنی نے کہا” کہا جا رہاہے کہ جولائی کے تیسرے ہفتے میں خیبر دودھ کے نمونے حاصل کئے گئے اور اسے بعد میں مضر صحت پایا گیا تاہم ابھی تک اس حوالے سے کمپنی کو کوئی علم نہیں تھا کہ خیبر دودھ کو کسی معتبر ادارے نے جانچ کیلئے بھیجا ہے“۔لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ اس طرح کی جانچ سے قبل پہلے کمپنی کو آگاہ کرے۔جیسا کہ بیان سے واضح ہوتا ہے ،کمپنی کا کہنا ہے کہ جانچ کرنے والوں کو پہلے اس سے پوچھ لینا چاہیئے کہ وہ کب تجرباتی طور بازار میں خالص دودھ لانے والے ہیں تاکہ اسکا نمونہ لیکر اسکی جانچ کی جا سکے اور کمپنی کے نام شاباشی کی ایک سند اجرا کر کے اسے ہمیشہ کے لئے زہر بیچنے کے لئے آزاد چھوڑا جائے۔
مصالحہ اور دودھ ہی کیا ابھی چند ماہ ہی گذرے ہیں کہ جب جموں و کشمیر کے سرکاری اسپتالوں تک میں غیر معیاری اور نقلی ادویات فراہم کئے جانے کا ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا تھا جسکی ابھی نام نہاد تحقیقات ہو رہی ہے۔دلچسپ مگر افسوسناک ہے کہ سرینگر کے بچہ اسپتال میں جب تک نقلی دوائی موجود ہونے کا راز کھل پایا تب تک یہاں سینکڑوں ماوٴں کی گود اُجڑ چکی تھی جبکہ ریاست کے دیگر سبھی سرکاری اسپتالوں کی شرح اموات دیکھنے سے بھی واضح ہوتا ہے کہ جتنے لوگوں نے دوائی کے نام پر بیچی جانے والی زہر کھائی ہے اُن میں سے بیشتر کی موت واقع ہو چکی ہے۔یہ معاملہ ابھی نہ جانے کتنے سال تک زیر تحقیقات رہے گا تاہم جنوبی کشمیر کے اسلام آباد قصبہ میں چند روز قبل ہی ایک یونانی اسپتال (یونانی و پنچکرما اسپتال)کو سربمہر کر کے اسکے ایک ڈاکٹر کو گرفتار کیا گیا کہ جب یہاں ایک مریض کو سڑی ہوئی دوائی کا ڈبہ تھماکر گھر روانہ کیا گیا تھا۔
چند ایک دن کے دوران ہی ان اسکینڈلوں کا بھانڈا پھوٹ جانے سے عام لوگ تو سکتے میں ہیں ہی لیکن اب عدالت نے بھی ان معاملات کا نوٹس لینا شروع کرکے لوگوں کو ایک امید دلائی ہے۔چناچہ ریاست میں انسانی حقوق کے کمیشن نے گذشتہ دنوں ایک بیان میں ملاوٹی اشیاء کے کاروبار کو انسانوں کے قتل عام کے برابر جرم بتایا اور اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔کمیشن کے ایک ممبر رفیق فدا نے مصالحوں اور دودھ میں ملاوٹ کے حوالے سے کہا کہ یہ کسی قتل عام سے کم نہیں ہے۔کمیشن کے پاس اس ھوالے سے ایک عرضی بھی پیش ہوئی ہے جس کے رد عمل میں متعلقین کو کمیشن کے پاس طلب کیا گیا ہے۔
مضر صحت اشیاء سے کشمیر میں ،جہاں کی ایک پیڑی کو بارودوبندوق اپنا نوالہ بنا چکی ہے،لوگوں پر کیا اثرات ہوئے ہیں اس بارے میں ابھی کوئی پیشہ ورانہ تحقیق ہونا باقی ہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ ریاست،با الخصوص کشمیر میں،کچھ سال سے کینسر کے جیسا مہلک مرض تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ کے شعبہ انسداد کینسر سے وابستہ ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے”طبی ماہرین خود بھی حیران ہیں کہ کشمیر میں کینسر کا مرض اچانک ہی کیوں پھیلنے لگا ہے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ شراب سگریٹ اور اس طرح کی چیزوں سے دور سادگی کے ساتھ زندگی گذارنے والے گھرانوں میں بھی کینسر کا کیڑا دراندازی کر چکا ہے“۔وہ کہتے ہیں”اگرچہ اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا ابھی مشکل ہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے جب ان کے ذرئعے بھی کینسر پھیلانے والا مواد جسم میں داخل ہو تو معاملہ بگڑ سکتا ہے“وہ کہتے ہیں کہ مصالحہ جات اور دیگر اشیاءِ خوردنی میں مہلک مواد کے شامل ہونے کے انکشاف کے بعد طبی تحقیق کی توجہ ضرور اس جانب بھی جائے گی اور اب ماہرین کشمیر کے کیسنر کی جڑیں نئی سمتوں اور نئی چیزوں میں تلاش کرینگے۔
جہاں تک عام لوگوں کا سوال ہے وہ ان کمپنیوں سے زیادہ سرکار سے نالاں ہیں۔میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ میں کینسر کے ایک مریض غلام حسن ،جو عمر کی محض55بہاریں دیکھ چکے ہیں،کے ساتھ آئے انکے فرزند امیتاز احمد نے بتایا”میرے والد ایک سادہ کسان ہیں ،محنت مشقت کر کے زندگی گذارتے رہے ہیں اور وہ کبھی بیمار بھی نہیں ہوئے یہاں تک کہ چند دن قبل انہوں نے پیٹ میں درد کی شکایت کی،ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسے کینسر ہے اور یہ چند ہی دن کے مہمان ہیں،بتایئے انہیں کینسر کس وجہ سے ہو سکتا ہے؟“۔امتیاز کا کہنا ہے ”حالیہ دنوں میں اخبارات میں چھپی رپورٹوں نے مجھے یہ یقین دلایا ہے کہ میرے والد بھی لالچی کمپنیوں کا شکار ہو ئے ہیں اور کیا معلوم کشمیر میں بیشتر لوگوں کے اوزار ملاوٹی اشیاء سے تباہ ہو گئے ہوں “۔انسٹیچیوٹ میں ہی ایک اور مریض کی ،نا خواندہ ،تیمار دار راجہ بیگم نے اپنی سادگی کے ساتھ کہا”کشمیر کی ایک پیڑی بموں اور گولیوں کی نذر ہوئی اور جو لوگ بچے ہیں اُنہیں ملاوٹی اشیاء قبرستان پہنچا کے ہی دم لیں گی،نہ جانے لوگوں کی جان لیکر امیر بننے والے ان لوگوں کو اتنی دولت کا کیا کرنا ہے،کیا انہیں کبھی نہیں مرنا ہے،کیا انسے کبھی کوئی حساب و کتاب نہیں ہوگا؟“۔
جیسا کہ کنول گروپ کے وکیل نے سرینگر میونسپل کارپوریشن میں دھمکی دی ہے کہ گروپ کی اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ ہے اور اسے کوئی چھیڑ بھی نہیں سکتا ہے بلکہ اس جیسی کمپنیوں کے راز کھولنے والے خود ہی برباد ہو جائیں گے،اہل کشمیر نے کئی معاملوں میں ایسا ہی ہوتے دیکھا ہے۔چناچہ میڈیکل انٹرنس اسکینڈل میں جیل پہنچ چکے اعلیٰ بیوروکریٹ مشتاق پیر کا سروس ریکارڈ گواہ ہے کہ وہ جس عہدے پر بھی فائز رہے وہاں لوٹ کھسوٹ کی اور اُس کرسی کو ذلیل کیا لیکن انکے خلاف کسی طرح کی تادیبی کارروائی کرنے کی بجائے نہ صرف انہیں مزید اختیارات والی کرسیوں پر پیشاب پھیرنے کی اجازت دی گئی بلکہ ریٹائر ہونے کے بعد انہیں دوبارہ نوکری پر رکھا گیا۔ان مثالوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کنول یا خیبر گروپ کا بال بھی بانکا ہوتے نہیں دکھائی دے رہا ہے لیکن جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے امید کی ایک کرن روشن کر دی ہے۔چناچہ عدالت عالیہ نے چند روز قبل زیر بحث موضوع سے متعلق مفاد عامہ میں ایک عرضی کی شنوائی کے دوران اپنے تاریخی فیصلے میں” خیبر“،”کنول“ اور ” اے ون ایگرو انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ“پر فی کس 10کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کرتے ہوئے انہیں ریاست کے سب سے بڑے اسپتال، انسٹیچیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ(سکمز)،کے ڈائریکٹر کے پاس رقم جمع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے جبکہ عدالت نے کہا ہے کہ اس رقم کو کس طرح استعمال کیا جائے اس بارے میں ایک الگ حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔عدالت نے سکمز کے ڈائریکٹر سے یہ رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے کہ اشیاء ِخوردنی میں پائی گئی ملاوٹ سے کون کون سے امراض پیدا ہونے کا احتمال ہے۔
یہ معاملہ اگلے دنوں کیا کروٹ لیگا،شرافت کا مکھوٹا پہن کر گھوم رہے زہر فروشوں کی ”اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ“بھاری پڑے گی یا پھر عدالت کا ہتھوڑا یہ تو بہرحال دیکھنے والی بات ہوگی لیکن جیسا کہ انسانی حقوق کے کمیشن کا کہنا ہے مذکورہ بالا کمپنیاں اور اس قبیل کے سبھی لوگ قتل عام کے مجرم ہیں۔کیا ان پر اسی نوعیت کے قوانین کے تحت مقدمہ چلا کر بے پناہ ایسے متاثرین کے ساتھ،جنہیں اچانک ہی کسی مہلک مرض میں مبتلا ہونے تک معلوم نہیں رہتا ہے کہ وہ جس روٹی کے لئے محنت مزدوری کر کے پسینہ بہاتے رہتے ہیں وہ روٹی در اصل زہر ہے،انصاف کیا جائے گا…آنے والا کل ہی بتا پائے گا۔(بشکریہ عالمی سہارا)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :