بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

پیر 13 جنوری 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہم نے ”گرگٹ“ نہیں دیکھا اور نہ ہی ہمیں علم ہے کہ یہ رنگ کیسے بدلتا ہے البتہ پاکستانی سیاست دانوں کو دیکھ کر کچھ کچھ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے ۔سیاست دان ہی کیا ، ہر طبقے میں یہ ”گرگٹی خوبی“ بدرجہٴ اتم موجود ہے البتہ ہمارا ”انگوٹھا چھاپ“ طبقہ اِس سے محروم ہے کیونکہ یا تواُنہیں پتہ ہی نہیں کہ رنگ کیسے بدلا جاتا ہے یا پھر وہ ابھی تک اپنی ”غیرتوں“ کے خول میں بند ہیں اور اِس ”غیرتی خول“ کو توڑ کر باہر آنا پسند ہی نہیں کرتے ۔

احمق ہیں یہ لوگ جو ”اپنی تو جہاں آنکھ لڑی ، پھر وہیں دیکھو“ پر تا حال عمل پیرا ہیں اور ”پیوستہ رہ شجر سے ، اُمیدِ بہار رکھ“ کی عملی تصویر نظر آتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاں ننگ وافلاس ہمیشہ ڈیرے ڈالے رہتی ہے لیکن مجال ہے جو یہ لکیر کے فقیر اپنی جگہ سے ایک انچ بھی اِدھر اُدھر ہوں۔

(جاری ہے)

دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو غیرت و حمیت نامی کسی ”چڑیا“ سے سِرے سے واقف ہی نہیں۔

یہی وہ لوگ ہیں جو رنگ بدلتے دیر نہیں لگاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہی طبقہ عقیل و فہیم ہے اور باقی سب احمق ۔ اِس طبقے پر پہلے صرف سیاست دانوں کی اجارہ داری تھی لیکن اب ما شا اللہ ہمارے لکھاری ، تجزیہ نگار اور دانشور بھی اِس میں شامل ہوتے جا رہے ہیں اور امیدِ واثق ہے کہ بہت جلد اِس طبقے پرسے سیاست دانوں کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی ۔

ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ اِن عقیل و فہیم لوگوں کو ”لوٹا“ کیوں کہا جاتا ہے ؟۔ہمیں تو بہرحال ایسی کوئی مماثلت نظر نہیں آتی جس کی بنا پر اہلِ سیاست کو لوٹوں سے تشبیہ دی جا سکے ۔لوٹا بلا امتیاز ہر کسی کا خادم ہے جب کہ سیاستدان مخدوم اورلوٹا ہمیشہ خاموش رہتا ہے جبکہ سیاستدان پارلیمنٹ ہو یا الیکٹرانک میڈیا ، ہر جگہ ”لمبی لمبی“ چھوڑتے رہتے ہیں اِس لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ متفقہ طور پر ایسی آئینی ترمیم لائے جس میں کسی بھی شخص کو ”لوٹے“ سے تشبیہ دینے پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہو البتہ اگر کوئی ”بَد ہضمی“ کا شکار ہو جائے اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگیں تو وہ لوٹے کی جگہ ”گرگٹ“ استعمال کر سکتا ہے ۔

ویسے بھی ہم نے گرگٹ کے بارے میں جو کچھ پڑھا اورسُنا ہے اُس کے مطابق تو ہمارے رہنما اور گرگٹ بھائی بھائی ہی لگتے ہیں ۔ اِس میں کوئی شَک نہیں کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہماری تاریخ کے دو ایسے کردار ہیں جِن کا نام ہمیشہ احترام سے لیا جاتا رہے گا لیکن ہمارے ”گرگٹوں“ نے اُنہیں بھی متنازع بنانے کی ٹھان لی ہے ۔

چوہدری برادران ، جن کی حیثیت اب شیخ رشید صاحب جتنی بھی نہیں رہی ، اُنہوں نے خبروں میں ”اِن“ رہنے کی ایک نئی طَرح نکالی ہے ۔چوہدری شجاعت حسین صاحب فرماتے ہیں کہ 3 نومبر 2007 ء کی ایمرجنسی میں وہ خود ، چوہدری پرویز الٰہی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی شامل تھے اِس لیے پرویز مشرف اکیلے ملزم نہیں ۔اُنہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے پی۔

سی۔او کے تحت حلف اٹھا کر پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999ء کی بغاوت آئینی تحفظ دیا ، اِس لیے وہ بھی شریکِ جرم ہیں ۔چوہدری صاحب کو یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ پرویز مشرف صاحب کو غدار کیوں کہا جا رہا ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ سپہ سالار غدار نہیں ہوتا اِس لیے مشرف صاحب کو غدار نہیں ، آئین شکن کہا جائے ۔عرض ہے کہ میر جعفر بھی سپہ سالار ہی تھا جسے مسلمہ ننگِ ملّت ، ننگِ دین ، ننگِ وطن کہا جاتا ہے اِس لیے قوم کو چاہیے کہ اپنے سابق وزیرِ اعظم جناب چوہدری شجاعت حسین کی بات مانتے ہوئے پرویز مشرف صاحب کو غدار کہنے کی بجائے ننگِ ملّت ، ننگِ دین ، ننگِ وطن کہا کرے ۔

چوہدری صاحب کافی تاخیر سے مشرف کی حمایت میں لنگوٹ کَس کر اکھاڑے میں کودے ہیں جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ پہلے چوہدری صاحب بہت مصروف تھے اور شنید ہے کہ وہ رقیبانِ روسیاہ سے مقا بلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو جدید ای ٹیکنالوجی سے لیس کر رہے تھے اور اخباری اطلاع کے مطابق اپنے حالیہ غیر ملکہ دورے پر اُنہوں نے ایک تیز رفتار آئی پیڈ بھی حاصل کر لیا ہے ۔

وہ فرماتے ہیں کہ ای ٹیکنالوجی آج کی زندگی ہے جس کے بغیر آگے بڑھنے کا تصور بھی ممکن نہیں ۔اِسی ای ٹیکنالوجی کے حصول کی وجہ سے چوہدری صاحب تھوڑے لیٹ ہو گئے لیکن اب اُتنی ہی تیزی اور تیز رفتاری کے ساتھ وہ میدانِ عمل میں ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ کسی دِن اُن کا آئی پیڈ اُنہیں مشورہ دے کہ وہ خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہو کر خود ہی یہ اقرار کر لیں کہ غداری کے مقدمے کا اصل ملزم پرویز مشرف نہیں بلکہ وہ خود ہیں اِس لیے پرویز مشرف کو باعزت بَری کرکے اُنہیں اور اُن کے بھائی چوہدری پرویز الٰہی کو ”ٹَنگ“ دیا جائے ۔

خصوصی عدالت نے بھی اُن کی بات فوراََ مان لینی ہے کیونکہ خصوصی عدالت خوب جانتی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی تو مشرف صاحب کو دَس بار وردی میں منتخب کروانے کا گلی گلی ڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے اِس لیے ہم چوہدری پرویز الٰہی صاحب کو یہ مفت مشورہ دیں گے کہ اگر وہ اپنی جان بچانا چاہتے ہیں تو اپنی اولین فُرصت میں چوہدری شجاعت صاحب کا آئی پیڈ غائب کر دیں ۔

اگر اُن کے پاس آئی پیڈ چھپانے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہ ہو تو اِس خدمت کے لیے ہم ہمہ وقت تیار ہیں ۔ اپنے الطاف بھائی کو بھی چوہدری شجاعت صاحب کے ساتھ ہی ”مشرف حمایت “کا احساس ہوا اور اُنہوں نے مشرف صاحب کو مہاجر ظاہر کرکے ”گود“ لے لیا ۔آجکل وہ مشرف کو لوریاں دے کر اُن کا دل بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن شنید ہے کہ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہمارے کمانڈو، الطاف بھائی کی کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ الطاف بھائی کا کیا اعتبار ، وہ صبح ایک بیان دیتے ہیں اور شام کو دوسرا ۔اِس کے علاوہ وہ جا و بیجا اتنی ”بڑھکیں“ لگا چکے ہیں کہ اب اُن کی ساری بڑھکوں کی ”پھُوک“ نکل چکی ہے ۔اب تو اُن کی دھمکیوں سے نائن زیرو والے بھی نہیں ڈرتے پھر بھلا نواز لیگ کیا اثر لے گی ۔ہمارے بھولے بھالے کمانڈو شاید نہیں جانتے کہ الطاف بھائی نے اُن کی حمایت میں اُنہیں ”مہاجر“ قرار نہیں دیا تھا بلکہ یہ تو نواز لیگ کے لیے پیغام تھا کہ ”ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں“۔

یہ الگ بات ہے کہ نواز لیگ پر اِس کا ”کَکھ“ اثر نہیں ہوا ۔اگر اونچے ایوانوں میں ہماری پہنچ ہوتی اور ہمیں یقین ہوتا کہ ہماری آواز ، صَدا بصحرا ثابت نہیں ہو گی تو ہم ضرور کہتے کہ ایم۔کیو۔ایم کی جھولی میں ایک آدھ مرکزی وزارت ڈال کر اُس کی اشک شوئی کرنا عین عبادت ہے ۔ ہمارے کچھ لکھاری بھائیوں کوبھی جنابِ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کے عہدِ اقتدار میں کیڑے نظر آنے لگے ہیں اور کچھ کالم نگاروں نے تو اُن کے خلاف پورے پورے کالم لکھ مارے ہیں۔

کراچی کے شہید ایس ایس پی چوہدری اسلم دہشت گردوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ وہ بُزدل ہیں جو چھُپ کر وار کرتے ہیں ۔اگر وہ مرد کے بچے ہیں تو سامنے آ کر وار کریں ۔ہم بھی افتخار محمد چوہدری صاحب کے مخالفین کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ اگر وہ مَرد کے بچے ہوتے توچوہدری صاحب کی ریٹائرمنٹ سے پہلے بات کرتے ۔ویسے بھی چاند پر تھوکنے سے تھوک ہمیشہ اپنے مُنہ پر ہی گرتا ہے اِس لیے کوئی کچھ بھی کہے یہ بہرحال طے ہے کہ انتہائی محترم افتخار محمد چوہدری عوام کے دِلوں کو مسخر کر چکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :