بلدیاتی انتخابات یا ٹرک کی بتی؟؟؟

اتوار 12 جنوری 2014

Sarfraz Raja

سرفراز راجہ

انتخابی شیڈول آگیا،،گلیاں محلے بنیروں سے سج چکے،،عوامی نمائند گی کے خواہشمندوں کے گھر گھر رابطے میل ملاقاتیں جاری ہیں،،لیکن سوال اب بھی یہی ہے،،کیا انتخابات ہوں گے؟یہی سوال گزشتہ سال 11مئی کے عام انتخابات سے چند گھنٹے قبل تک بھی پوچھا جاتا رہا،،غیر یقینی اس وقت بھی لیکن خدشات کچھ مختلف تھے،،سیکیورٹی خطرات ،امن و امان کی صورتحال اورخفیہ ہاتھوں کی ممکنہ مداخلت جیسے سازشی نظریات سب ایک طرف رہا اور ملکی کی تاریخ کے سب سے بڑے عام انتخابات بخیر و خوبی ہو گئے،،،مرکز اور صوبوں میں نئی حکومتیں بھی بن گئیں،،اب بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں تو ان کے انعقاد پر بھی خدشات اور سوالات ہیں کچھ مختلف لیکن حقیقت کے قریب ،،،،بلدیاتی انتخابات وقت پر ہوں گے، عدالتی احکامات پر عمل در ٓامد ہوگا آن ریکارڈ تو متعلقہ حکام یہی کہتے ہیں،، ،، لیکن آپس کی بات کچھ مخلتف ہوتی ہے،، کہا جاتا ہے کہ حکم ملا ایک گھنٹے میں لاہور پہنچ جائیں وہ بھی بذریعہ سڑک ،،چل پڑے ہیں دیکھیں کہاں تک پہنچ سکتے ہیں،،،تو سمجھ جائیں بلدیاتی انتخابات کا مقررہ تاریخوں پر انعقاد ایک گھنٹے میں اسلام آباد سے لاہور پہنچنے کے مترادف ہی ہوگا،،،اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ انہیں کس قسم کا بلدیاتی نظام چاہئے،،قانون سازی حلقہ بندیاں یہ کام صوبوں کو مل گیا،،انتخابات کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کو دے دی گئی،، قانونی طریقے سے حلقہ بندیاں مکمل کرنے کے لئے کم سے کم ایک ماہ کا وقت درکار ہے،،جس میں حلقہ بندیاں کرنا پھر کم از کم دو ہفتے کے لئے ان مجوزہ حلقہ بندیوں کی اشاعت،اور پھر ان پر اعتراضات داخل کرنے کا وقت اور پھر ان اعتراضات کی سماعت ،،،یہ تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد ہی قانونی حلقہ بندیاں مکمل ہوسسکتی ہیں،،،،،،قانون،رولز اور حلقہ بندیاں سب کچھ مکمل ہوجائے تو پھر الیکشن کمیشن کو اپنی تیاریوں کے لئے بھی کم سے کم دو ماہ کا وقت درکار ہوگا،،،،یوں اس سارے عمل کو مکمل ہونے میں کم سے کم درکار وقت تین ماہ کا ہے،،بلوچستان، سندھ اور پنجاب نے عدالت میں بلدیاتی انتخابات سات دسمبر کو کرانے کا کہہ دیا تو الیکشن کمیشن سپریم کورٹ چلا گیا کہ یہ وقت بہت کم ہے سپریم کورٹ ک نے ممکنہ تاریخیں مانگیں تو ر الیکشن کمیشن نے سندھ میں 18 اور پنجاب میں 30 جنوری کو انتخابات کرانے کی اپنی تاریخیں دے دیں، جس کے مطابق انتخابی عمل شروع بھی ہوگیا لیکن مسئلہ پھر وہی سامنے آیا وقت کی کمی ،،بلدیاتی انتخابات عام انتخابات سے 3 گنا بڑی مشق ہے،،اخراجات بھی زیادہ ہیں،،جس کا تخمینہ سو چھ ارب روپے سے زائد ہے،،سندھ کے لئے 3 کروڑ اور پنجاب کے لئے 30 کروڑ بیلٹ پیپرز چاہئیں،،سرکاری پرنٹنگ پریسزکی 1 کروڑ 15 لاکھ بیلٹ پیپرز یومیہ چھاپنے کی اہلیت ہے،، ،،یعنی،صرف پنجاب کے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لئے کم سے کم 30 دن کا وقت درکار ہوگا، اور اس کے بعد تمام پولنگ اسٹیشنز پر ان کی ترسیل میں بھی وقت لگے گا،،، بیلٹ پیپرز کی چھپائی امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہونے کے بعد ہی شروع ہو سکے گی،تو پھر مقررہ وقت پر انتخابات کیسے ممکن ہیں؟؟،صوبوں نے سپریم کورٹ میں پہلے اپنی مرضی کی تاریخیں دیں،الیکشن کمیشن نے ان تاریخوں پر انتخابات ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے عدالت سے اپنی مرضی کا وقت لیا،،لیکن اب اس وقت کو بھی ناکافی قرار دیا جارہا ہے،،،انتخابی منشوروں میں تو تین مہینوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے وعدے ہوئے ،،لیکن اقتدار ملتے ہی کچھ یاد نہ رہا،، فوری تیاریاں ہوئیں نہ کوئی سنجیدگی دکھائی دی، کہیں قانون سازی ہی نہ ہوسکی تو کہین حلقہ بندیاں قانون کے مطابق مکمل نہ ہوئیں ،،بلدیاتی انتخابات گلی محلے کی سطح پر ہوتے ہیں جس میں لوگوں کی براہ راست شمولیت عام انتخابات سے زیادہ ہوتی ہے،،بلدیاتی انتخابات کی گاڑی ایک گھنٹے میں کہاں تک پہنچ پائے گی یہ تو معلوم نہیں لیکن کئی سالوں سے بلدیاتی انتخابات کے منتظرعوام تو اشارہ ملتے ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ پڑے ہیں،،،،،،،بڑے صوبوں کی بڑی جماعتوں کے انتخابی نعرے تو ایک جانب رہ گئے لیکن سب سے چھوٹے اور پسماندہ صوبے بلوچستان نے امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باوجود سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کراکے بڑے اور منجھلے صوبوں کو بتادیا کہ نیت درست ہو تو مشکلات میں سے ممکنات نکل آتی ہیں،،،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :