بلدیاتی الیکشن سے فرار کا راز؟

ہفتہ 11 جنوری 2014

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

بلدیاتی اداروں کے الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے حکومت، عوام اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے درمیان دلچسپ آنکھ مچولی جاری ہے۔ جنوری، فروری حتیٰ کہ مارچ2014ء میں سندھ اور پنجاب حکومت الیکشن سے کیوں فرار چاہتی ہے؟ اکتوبر ، نومبر2014ء یا پھر2015ء کے جنوری، فروری ، مارچ تک الیکشن سے فرار کے کیوں بہانے ڈھونڈ رہی ہے اس اہم ر از سے پردہ اُٹھانے سے پہلے 7جنوری کو سپریم کورٹ میں جناب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین گیلانی کی سربراہی میں جاری تین رکنی بنچ کی سماعت کے دوران ہونے والے دلچسپ ریمارکس کا اور گزشتہ تین،ساڑھے تین ماہ سے جاری انتخابی مہم کا بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں یر کیا قیامت گزر رہی ہے۔
ہمارے ملک میں عموماً تاثر یہ ہے پنجاب اور سندھ میں سیاسی شعور اور بصیرت زیادہ پائی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام بالعموم اور سیاسی رہنما بالخصوص تھوڑا پیچھے ہیں، مگر عملی طور پر گنگا الٹی بہتی نظر آتی ہے۔ بلوچستان کی مخلوط حکومت جو تین ماہ تک اپنی کابینہ نہ بنا سکی وہاں کی پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو داد دینا پڑے گی۔ انہوں نے کمال سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان حالات میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کروا ڈالا، جبکہ وہاں چاروں اطراف آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ آنے والے وقت کا ادراک کن شخصیات نے کیا وہ بھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔ بلوچستان حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو آگے جا کر کیا ثمر ملنے والا ہے، اس کا اندازہ شاید ابھی ممکن نہیں البتہ پنجاب اور سندھ کے اہل دانش جو مسلسل بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کو آگے سے آگے لے جانے کے لئے حربے استعمال کر رہے ہیں انہیں آخر پریشانی کیا ہے۔ اکتوبر، نومبر2014ء یا2015ء کے اوائل میں کیوں انعقاد چاہتے ہیں وہ بتا سکتے ہیں راز کی بات؟
بات کر رہا تھا سپریم کورٹ میں 7جنوری کو ہونے والی سماعت کی جس میں ایڈیشل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کنٹونمنٹ بورڈ میں فروری کے مہینے میں بلدیاتی الیکشن کروانے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے مزید مہلت طب کی، جس کے جواب میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس خلجی عارف حسین نے ایک ایک فقرہ کہہ کر گزشتہ دو سال سے جاری عوامی بے چینی کا اظہار کر دیا۔ جسٹس عظمت سعید فرماتے ہیں یہ پرانی کہانی ہو چکی ہے اس لئے نئی کہانی بتائیں تو سوچیں گے۔ جناب جسٹس خلجی عارف حسین نے فرمایا اگر الیکشن نہیں کروانے تو صاف صاف کہہ دیا جائے انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتے۔ سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ اور جناب افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں ریٹائرمنٹ تک جاری رہنے والی سماعت کے ریمارکس بھی تاریخ ساز رہے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے بعد لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دینے کے بعد ساڑھے تین ماہ سے انتخابی مہم کے نام پر دن رات ایک کرنے والے ان امیدواروں پر کیا پہاڑ ٹوٹا جو لاکھوں روپے نہیں، بلکہ کروڑوں روپے خرچ کر چکے ہیں ان کی بھی سن لیں۔ ہائی کورٹ کی طرف سے حلقہ بندیوں کے کالعدم قرار دینے کے دو دن بعد لاہور کے بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوامی خدمت میں تاریخ رقم کرنے والی مقبول عام شخصیت میاں عامر محمود کے قریبی ساتھی اور سابق اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنما جناب راجہ منور صاحب کا فون آیا کہ میاں صاحب ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ بلدیاتی الیکشن کا مزید التوا ہم برداشت نہیں کر سکتے، ہماری سفید پوشی داؤ پر لگ گئی ہے صحافی دوستوں کو خدارا اکٹھا کریں اور آج ہی اکٹھا کریں، مَیں بے انصافی پر آواز بلند کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں آخر تک جاؤں گا۔ راجہ منور صاحب کے جذباتی انداز نے اتنا متاثر کیا ابھی فون کرنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ نوجوان ایڈیٹر روزنامہ ”اوصاف“ جناب ذوالفقار راحت صاحب کا فون آ گیا۔ میاں صاحب راجہ منور صاحب بڑے پریشان ہیں اُن کی آواز بننے کی ضرورت ہے۔ راجہ منور صاحب کا اصرار ہے پریس کانفرنس سے پہلے احباب کے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہوں۔ اُن کی رائے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ پنجاب بھر کے امیدواروں اور عوام کی آواز بننا چاہتا ہوں۔ راجہ منور کا جذباتی انداز کام دکھا گیا، دوپہر اڑھائی بجے کا وقت طے ہو گیا۔ لاہور کے مقامی ہوٹل میں جناب ذوالفقار راحت ، جناب میاں حبیب ایڈیٹر ”دن“، جناب ندیم اشرف ایڈیٹر نیوز ”جہان پاکستان“ اور سٹی42اور دیگر احباب سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے راجہ منور کے جذبات کی ترجمانی کروں۔ راجہ منور اور صحافیوں کے رشتے باہمی احترام کی بات کروں گا۔ محترم میاں عامر محمود اور راجہ منور سابق جماعتئے ہیں ان کی مخصوص تربیت کی وجہ سے شروع دن سے ہی صحافی برادری میں ان کا نمایاں مقام رہا ہے۔ میاں عامر محمود جب ضلعی ناظم تھے اُن کے کام کا انداز اور اُن کی بنائی ہوئی ٹیم اور اُن کی باہمی انڈر سٹینڈنگ بڑی بڑی پارٹیوں کے لئے آج تک خطرہ بنی رہی ہے۔ راجہ منور نے بھی میاں عامر محمود کے ساتھ چیئرمین فنانس، پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کی حیثیت سے صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ میاں عامر محمود کی طرح راجہ منور نے بھی صحافی برادری کے ساتھ اپنا تعلق کبھی ٹوٹنے نہیں دیا۔ یہی وجہ تھی چار گھنٹے کے شارٹ نوٹس پر لاہور کے تقریباً 10 سینئر صحافی ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ راجہ منور فرماتے ہیں تین، ساڑھے تین ماہ سے جاری انتخابی مہم نے ہمارے جیسے ہزاروں امیدواروں کی کمر توڑ دی ہے۔ لاہور میں جہاں ڈیڑھ سو یونین کونسلیں تھیں وہاں پونے تین سو یونین کونسلیں بن رہی ہیں۔13افراد کی یونین کونسلر کے لئے2000اور چیئرمین وائس چیئرمین کے لئے 5000 فی کس کے حساب سے فیس ایک یو سی کے13افراد سے رقم اکٹھی کی گئی ہے۔ کم از کم چھ چھ گروپ، یعنی6x13فی یونین کونسل کے حساب سے کروڑوں روپے لاہور اور اربوں روپے پنجاب سے اکٹھے کر لئے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حلقہ بندیوں کے حوالے سے رٹ پر فیصلہ آنے کے بعد حکومتی حربے سمجھ سے بالاتر ہیں۔ عجب تماشا لگا ہوا ہے، چھ سال سے الیکشن نہیں ہو رہے، بلدیاتی اداروں کے بجٹ پاس ہو رہے ہیں، ضلعی سطح پر بھی اور یو سی کی سطح پر بھی بلدیاتی نظام کے فوائد تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما گنواتے تھکتے نہیں۔ دراصل بات یہ ہے ایم این اے اور ایم پی اے(MPA) کی مناپلی ہے۔ پاور شیئرنگ کا خوف ہے، جنرل پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام بہترین تھا اس نے اپنی بنیادیں مضبوط کرنے کے لئے بنایا تھا یا عوام کے لئے یہ بحث نہیں ہے۔ گراس روٹ پر لوگوں کو ریلیف ملتا رہا، گلی محلوں کے کام ہوتے ہیں، عوامی طاقت اور عوام سے رشتے کا بہترین ذریعہ بلدیاتی ادارے ہیں، مَیں پریس کانفرنس کروں گا، چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھوں گا، مَیں اکیلا میدان میں آؤں گا، مجھے یقین ہے کہ چند دنوں میں قافلہ بنے گا۔ لاہور سمیت پنجاب بھر کے امیدوار میری آواز کے ساتھ آواز ملائیں گے، گلی محلے سے احتجاج اٹھے گا، اوپر حکمرانوں کو الیکشن کروانے پر مجبور کر دیں گے یہ تھے راجہ منور صاحب کے جذبات کے کچھ حصے۔ یقینا انہیں میدان میں آنا چا ہئے ایک سے دو اور دو سے چار، انہیں قافلہ بنانا چاہئے، آزاد میڈیا ہے، عوام تو پہلے ہی ایسے سفید پوش مخلص جرأت مند لیڈر منتظر ہیں، تین ماہ میں دیہات میں کیا ہو گیا ہے، گلی اور محلے میں برادری گروپ، فسادات کی زد میں ہیں اب الیکشن کا مزید التوا کیا رنگ دکھائے گا۔ اچھی امیدوں کے ساتھ اس راز سے پردہ اٹھاتا ہوں سندھ اور پنجاب جنوری، فروری میں الیکشن کے انعقاد میں کیوں مخلص نہیں ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے اگر حکومت دسمبر2013ء میں الیکشن کروا دیتی تو موجودہ حکومت کے آخری سال بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہو جاتی تو چار سال بعد بلدیاتی الیکشن پھر کروانے کا وقت آ چکا ہوتا ، موجودہ حکمرانوں کے پانچ سال پورے ہوں تو قومی الیکشن سے پہلے بلدیاتی الیکشن کا انعقاد حکمران افورڈ نہیں کر سکتے۔ ان کی خواہش ہے جب موجودہ حکمران قومی الیکشن کے لئے میدان میں آئیں تو ان کی بلدیاتی الیکشن میں منتخب ہونے والی ٹیم ان کی سپورٹ کے لئے موجود ہو، اس بات کا اظہار کر نہیں پارہے، حیلے بہانوں سے ایک سال مکمل کر رہے ہیں۔ اگلے بلدیاتی الیکشن کا انعقاد اگلے قومی الیکشن کے بعد ہو نہ کہ پہلے۔ یہ ہے راز کی بات حالانکہ دور اندیش سیاسی رہنماؤں کو اندازہ نہیں ہے، کمر توڑ مہنگائی ، بیروزگاری، بدامنی، عدم تحفظ نے حکمرانوں کی سب تدبیروں پر پانی پھیر دیا ہے جو ثمرات2013ء میں بلدیاتی الیکشن کروا کر حاصل کئے جا سکتے تھے اب شاید ممکن نہیں ، کیونکہ مہنگائی کا جن روز بروز عوام اور حکمرانوں کے درمیان خلیج پیدا کر رہا ہے اس کو ختم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :