ایک بہادر پولیس آفیسر کی شہادت، ایک قومی سا نحہ

ہفتہ 11 جنوری 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

سال نو کا پہلا ماہ ہی قوم کو ایک المناک خبر سے غمزدہ کرگیا ہے یہ چوہدری اسلم، ایس ایس پی کی شہادت ہے ۔شہید نے1984 میں سب انسپکٹر کی حیثیت سے پولیس کی نوکری کا آغاز کیا تھا اور 2014کے پہلے ماہ میں ایس ایس پی،سی آی ڈی کے عہدہ پر فائض اپنی سرکاری ڈیوٹی دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔سینئر سپرنٹنڈنٹ پو لیس کی حثیت سے سنٹرل ا نویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ میں ان کے آخری چند سالوں کی د ہشت گردی کے خلاف جدوجہد سنہرے الفاظوں میں لکھے جانے کے قابل ہے۔انہوں نے اپنی ملازمت کے ا بتدائی سالوں میں کراچی کے بہت سے تھانوں میں ایس ایچ او کی حثیت سے کام کیا۔شہیدچو ہدری اسلم خان کا تعلق ہزارہ سے تھا،2010 میں ان کو ان کی غیر معمولی قابلیت اور بہادری اور تجربہ کی بنیاد پر سی آی اے کا سر براہ مقرر کیا گیا اور تا دم اسی عہدہ پر اپنی جان کا نظرانہ قوم کو پیش کیا۔

(جاری ہے)

کراچی کے گزشتہ برسوں میں جس طرح کے حالات پیدا ہوچکے تھے اور جس طرح کی شرپسندی دہشت گردی وہاں پروان چڑھ رہی تھی ان حالات میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کاروائیوں نے ان کو ایک غیر معمولی بہادر اور فرض شناس پولیس آفیسر کے طور پر قوم کے سامنے اجاگر کیا تھا۔وہ حقیقی معنوں میں دہشت گردوں کے لئے ایک سب سے بڑا خطرہ بن چکے تھے۔دہشت گرد پورے ریاستی نظام کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن صرف اسلم خان کی بہادری اور دلیری ہی ان کے لئے ریاستی نظام سے بڑا خطرہ بن چکی تھی۔ایک فرد واحد فرض شناس پولیس آفیسر دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔یہی وجہ تھی کہ ان کی ملازمت کے دوران ان پر اس سے قبل بھی خطرناک حملے ہو چکے تھے،اور یہ تیسرا جان لیوا حملہ تھا، حملے کی شدت اور منصوبہ بندی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کی دہشت گردوں نے خوف کی حالت میں اتنی شدت کا حملہ کیا کہ بچنے کا کوئی امکان نہ رہے۔اس سے قبل کلفٹن کے علاقہ میں بھی ان پر حملہ کیا گیا تھا جس میں ایک اے ایس آئی سمیت چار پولیس والے شہید ہوگئے تھے۔
حقیقت تو یہ کہ ایک طرف پوری ریاست کالعدم تنظیموں پر پابندی کے باوجود محض اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی غرض سے ان کے خلاف اندرون ملک اس طرح کی کاروائیوں میں ناکام رہی ہے جس طرح کا مظاہرہ اس پولیس آفیسر نے کیا ہے۔لیاری کے حوالے سے خطرناک ترین مجرموں کے قلعہ قمعہ کرنا اور ان کو پکڑنے سے ان کی جان کو یقینی طور پر شدید خطرات لاحق تھے لیکن ٹی وی چینلز پر متعد د بار انہوں نے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف اپنے سرکارے فرائض نبھاتے رہیں گے ۔یہ ان کا عزم انکی بہادری ، دلیری اور حب ا لوطنی کا ثبوت ہے۔تحریک طالبان کے امیر قاری سعید انور کی گرفتاری اور بعد ازاں اس کے نائب اختر زمان کی گرفتاری ان کے کامیاب ریڈز تھیں، ایک کا لعدم تنظیم کے ماسٹر مائینڈ وسیم بارودی کی گرفتاری بھی محمد اسلم خاں نے کی تھی جو کہ بہت سی فرقہ وارانہ کاروائیوں میں ملوث تھا۔ اسی طرح کی متعدد کامیاب ریڈز دہشت گردوں کے لئے وہ ایک خوف کی علامت بن چکے تھے۔بیت اللہ مشہود کی ہلاکت کے بعد نئی قیادت کی طرف حملوں کی دھمکیاں قومی اخبارات کی زینت بن چکی تھیں ان حالات میں احتیاطی تدابیر اورروزانہ تبدیلی کی بنیاد پر پالیسی ا ختیار کرنے کی ضرورت تھی۔ایک چیز جو با بار ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ کہیں پولیس کے اندر سے انکے روٹ کی نشاندیہی نہ کی گئی ہو؟کہیں نہ کہیں غفلت ضرور ہوئی ہے۔غالب امکان یہی ہے کہ پولیس کے اندر سے کسی کٹر مذہبی اہلکار نے مذہب کی عقیدت کی بنیاد پر مخبری کردی ہو اور یہ بات سرکاری اداروں کے نوٹس میں ہے کہ ان کالعدم تنظیموں نے اہم سرکاری اداروں میں اپنے ہم خیال اہلکار ڈھونڈ رکھے ہیں جو پولیس اور ریاستی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کو دہشت گردوں تک پہنچاتے ہیں۔گورنر پنجاب کے قتل اور بہت سے دیگر مذہبی الزامات میں گرفتار ملزموں کا سرکاری اہل کاروں سے قتل کے واقعات ریاستی اداروں اور خود ریاست کوجگانے کے لئے کافی تھے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک سنجیدہ ریاستی کاروائی کبھی بھی اور کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔مذہبی جماعتوں خاص کر جماعت اسلامی کے حوالے سے اب ریاست اور ریاستی اداروں کو سنجیدگی اور ملکی مفاد میں فوری طور پر اقدامات کرنے ہونگے۔کراچی جو کہ بانی پاکستان کا آبائی شہر ہے میں حکیم سعید کی شہادت کے بعد محمد اسلم خاں ایسے پولیس آفیسر کی شہادت پوری قوم کے لئے دکھ اور غم کا باعث ہے۔ان حالات میں ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کی رٹ لگانے والے سیاستدانوں کی مکمل تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ حالات میں سب سے اولین اور فوری قدم اہم ریاستی اور پولیس ایسے تمام اداروں کو مذہبی عناصر سے پاک کرکے مکمل پروفیشنل ازم کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کامیاب کاروائی ہوسکتی ہے۔ ریا ستی اداروں کی مضبوطی سے ہی ریاست بھی مضبو ط ہو تی ہے ۔اگر ایک فرد واحد پولیس آفیسر دہشت گردوں کے خلاف خوف کی علامت بن سکتا ہے تو ایک مکمل ریاست کیوں نہیں بن سکتی؟؟؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :