پکڑ لو،پکڑلو۔۔۔۔جانے نہ پائے

جمعرات 9 جنوری 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

خصوصی عدالت میں سابق آرمی چیف اور سابق صدر پاکستان پر ویز مشرف کے خلاف جاری غداری کے مقدمہ شروع ہو چکا ہے۔اور اس مقدمہ کی پہلی قسط نے ابتداء ہی میں ڈرامائی اور سنسنی خیز کو جنم دے دیا ہے۔اور پہلی پیشی کی صورت حال نے آنے والے دنوں اور کڑے وقت کی نوید سنا دی ہے۔اکتوبر 1999 میں اس وقت کی حکومت کا بستر گول کرنے کا سبب پرویز مشرف تھے اور آجکل جس طرح کے حالات ہیں اور جس طرح حکومت نے قومی مسائل، جیسے بجلی کا بحران،د ہشت گردی ، امن ا آمان، بیروزگاری، صوبائی حکومتوں کے اختلافات اور ا ندرونی بڑ ھتے ہوئے مسائل ، کراچی کا خونی و لسانی مسئلہ، بلو چستان میں لگی آگ، پنجاب پر ڈینگی کے حملے،ملکی معاشی مسا ئل سب کیچھ نظر انداز کر کے اس مقد مہ کا آغاز ا یک سنجیدہ ا قدام نہیں ہے۔اور پرویز مشرف ایک مرتبہ پھر نواز شریف کے لئے ازمائش بن رہے ہیں یہ ایک بد ترین سیاسی غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

ایک مرتبہ پھر عوامی اور قومی مسائل کو نظر انداز کرکے ذاتی انتقام لینے کی خواہش کی تکمیل کے اثرات بہت بھیانک ثابت ہوسکتے ہیں۔ماضی میں ایک بدنام زمانہ ڈکٹیٹر ضیاالحق نے ایک سیاست دان اور سابق و زیر ا عظم کو پھانسی دے دی تھی وہ اقدام آج بھی ملکی سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہے اور آج ایک سیاست دان حاضر و ز یر اعظم کی طرف سے ایک سابق آرمی چیف کے خلاف غداری کا مقدمہ اور اس کو موت کی نیند سلانے کی کوشش کسی بھی لحاظ سے ملکی مفاد میں نہیں۔ سیاست دانوں اور فوج کے مابین پہلے ہی ایک دوسرے کے خلاف نفرت مو جود ہے،اس سے ایک اور نیا محاز کھل سکتا ہے،یہ کشمکش کسی بھی لحاظ سے ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہو سکتی۔ 1971کی جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ بھی اسی کشمکش کا شاخسانہ تھا۔کیا عجب بات ہے کہ 1999میں بھی پرویز مشرف ہی وجہ تھے اور اب 2014 میں بھی ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا 1999 کا اقدام درست تھا۔نہ فوجی حکومت کی حمائت ممکن ہے،فوجی حکومت کا سیاست دانوں کی مو جودگی میں بار بار یا پہلی بار پار لیمنٹ پر قبضہ کسی بھی لحاظ سے قا بل قبول نہیں۔طاقت اور جمہوریت دونوں ایک دوسرے کا متضاد ہیں۔ماضی میں تمام فوجی حکومتوں کے دور میں سانحوں نے جنم لیا تھا۔اور انہوں نے بار بار جمہوریت کی پامالی کی اور اس کا خمیازہ صرف اور صرف عوام بھگت رہے ہیں۔نفرت اور انتقام کی آگ مذہب کے حوالے سے پہلے ہی بھڑکی ہوئی ہے، ایک اور نئی کوشش سب کیچھ جلا دے گی ۔کیچھ باقی نہ رہے گا۔ضیاء الحق جو کہ موجودہ سیاسی قیادت کے سیاسی سرخیل تھے بھی ایک سابق فوج حکمران تھے اور ان کے ہی وہ تمام اقدامت تھے جن کو پرویز مشرف نے انتھا تک پہنچایا۔ا فغانستان پر روسی حملے کے بعد اس وقت کی فوجی حکومت کے فیصلوں کا نتیجہ آج کے تمام مسائل کی شکل میں موجود ہے، تمام سابقہ فوجی حکومتوں کا اقتدار غیر آئینی تھا،لیکن اس سے بڑھ کر اہم سوال یہ ہے کہ ان تمام فوجی حکومتوں کے ساتھ اقتدار میں شرکت اور تمام فیصلوں میں شامل ہونے والے،اور انھی کے دور میں سیاست کا آغازکرنے والے سیاست دانوں کو کیا کہا جائے؟سچی اور کڑوی بات یہی ہے کہ سیاست دانوں کی اپنی کمزوریاں تھیں جن کا فائدہ ا ٹھایا گیا اور آج بھی اٹھایا جا رہا ہے۔چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ سابق آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بھی شامل کیا جائے،پرویز ا لہی نے کہا کہ پر ویز مشرف سے حلف ا ٹھانے والوں کو بھی پکڑا جائے، حقیت میں فساد کی جڑ وہ غیر جمہوری سوچ ہے جو سیاست دانوں کے اندر بھی موجود ہے۔ پالیمینٹ کے ان فیصلوں کا کیا جائے جو ضیاء ا لحق اور پرویز مشرف کے دور میں ہوئے تھے؟وہ پارلیمنٹ کس طرح غداری کے الزامات سے پاک رہ سکتی ہے،عدالتوں کے ان فیصلوں کی کیا اہمیت ہے جو ان فوجی حکومتوں کے ادوار میں ہوئے تھے،ان ججوں کا کیا مقام ہے،پاکستانی سیاست ایک ایسا گندہ حمام ہے جس کے بد بودار پانے سے سب نہانے پر سب خوش ہیں اور خوشی خوشی نہا رہے ہیں۔چوہدری شجاعت حسین کا حالیہ بیان خوف اور د ھمکی میں لپٹا ہوا ہے کہ سب کو شامل کیا جائے،اگر اس پر عمل کیا جائے تو کوئی سیاست دان بھی باقی نہ بچے گا، اور دوسرا فریق اس بات بخوبی واقف ہے کہ سیاست دانوں کی کیا کیا کمزوریاں ہیں۔ایک عورت کے ساتھ اگر ریپ کیا جاتا ہے،عورت کو باندھنے اور پکڑنے والے کیسے پاک صاف ہوسکتے ہیں؟اور کیوں انصاف کے کٹہرے میں نہیں آ سکتے؟ ہماری سیاست کا یہ تاریخی المیہ ہے کہ ہر دوڑ میں کسی نہ کسی کو پکڑنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔پکڑلو،پکڑلو ،جانے نہ پائے کی صدا ہر دور میں گو نجتی رہی ہے،لیکن اب تک پکڑا صرف بھٹو ہی گیا،نہ صرف پکڑا گیا بلکہ انجام تک پہنچایا گیا اور اس کا کریڈٹ سابقہ فوجی حکومت اور عدلیہ کو جاتا ہے۔اور بدنامی کا ایک اور سیاہ ٹیکہ اب جمہوری حکومت کے ماتھے کا جھومر بنایا جا رہا ہے۔زرداری کو بھی پکڑ لو،پکڑلو کی صدا کا سامنا تھا،لیکن ابھی تک وہ پکڑے نہیں جا سکے،لیکن صدا کبھی کبھی کانوں تک پہنچ جاتی ہے، سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو بھی فوجی حکومت میں پکڑنے کی کوشش ہوئی جس کا انجام سب کے سامنے ہے۔اس لحاظ سے نواز شریف گو وہ سیاست دان کم اور بزنس مین زیادہ ہیں لیکن ا نھوں نے سب سے زیادہ عقلمندی کا مظاہرہ کیا کہ پکڑے جانے کے باوجود ہاتھوں سے پھسل کر نہ صرف نکل گئے بلکہ واپس آکر الٹا انھی کو پکڑ بھی لیا، اور ایسا پکڑا کہ لگتا ہے کہ اب جان ہی نکلے گی چھوٹے گی نہیں۔اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا کہ کون بچتا ہے، پکڑا جانے والا یا پکڑنے والا۔۔؟؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :