سوئی (جتنی) گیس

منگل 7 جنوری 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

جوں جوں سردی بڑھتی جا رہی ہے توں توں لوگ گھروں میں سرگم گاتے پھر رہے ہیں۔کسی بچے نے کہنا ہو کہ ماما بھوک لگی ہے تو کہہ رہا ہوتا ہے سا رے گاما پادھا نی سا۔اگر کسی نے باپ کو یہ کہنا ہو کہ پاپا مجھے جوتے لے دیں تو سردی کی شدت سے کانپتے ہوئے کہہ رہا ہوتا ہے سانی دھاپا ماگا رے سا۔اہلِ خاندان اندازے سے ہی ایک دوسرے کی بات سمجھ رہے ہیں کہ فرزندِ ارجمند یہ کہہ رہے ہیں اور بزرگِ محترم یہ فرما رہے ہیں۔لوگ سوچا کرتے تھے کہ گیس کو سوئی گیس کیوں کہتے ہیں ، اب جبکہ سوئی کے برابر بھی گیس نہیں نکل رہی تو اُن پر معنی واضح ہو رہے ہیں۔اب تو گھر کی کوئی نہ کوئی خاتون چولہے پر سنتری کے فرائض ادا کر تی رہتی ہے۔باقی گھر والے سانس بند کر کے خوشخبری سننے کے منتظرہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے چھوٹی عید کے موقع پر رویتِ ہلال کمیٹی کی طرف سب کے کان لگے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

خاتونِ خانہ ماچس کو ہاتھ میں لئے چولہے کی طرف دیکھتی رہتی ہے،جب بھی اُسے شک گزرے کہ چولہے سے شوں کی آواز آئی ہے تو فٹ تیلی جلا دیتی ہے ۔ماچس جلنے کی آواز سن کر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد دوڑکر باورچی خانہ کی طرف آتا ہے اور خاتونِ خانہ سے باآوازِ بلند پوچھتا ہوا آتا ہے آ گئی؟۔خاتونِ خانہ تیلی جلا کر چولہے کے ساتھ اُس وقت تک لگائے رکھتی ہے جب تک شہادت کی انگلی یا انگھوٹھے میں سے ایک جلنے نہ لگ جائے اور اُس کے لئے سہنا ناقابلِ برداشت نہ ہوجائے۔ جب تیلی بجھ جائے تو بُرا سا منہ بنا کے آہستہ سے کہتی ہے ’ نہیں آئی۔یہ آئی اور نہیں آئی کا سلسلہ اُس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک گھر میں موجود ماچسیں ختم نہ ہو جائیں۔ماچس کی ادھ جلی تیلیاں گیس کے چولھے کے گرد اتنی تعداد میں اکٹھی ہو جاتی ہیں کہ سنتری خاتون انہیں ہی ایندھن کے طور پر جلانے کے بارے میں سوچنے لگ جاتی ہے۔جب وہ اپنے اس ارادے کا اظہار گھر والوں سے کرتی ہے توگھر والے بھی اپنے اپنے سامان میں موجود اشیاء کے بارے میں سوچنے لگ جاتے ہیں جو ایندھن کے طور پر استعمال ہو سکتی ہوں۔بچے اپنی اپنی کاپیوں کے لکھے ہوئے کاغذ پھاڑ لاتے ہیں ’ما ما یہ بھی جلا لیجئے ‘۔ بزرگ اپنی فالتو ڈائریاں کباڑ سے ڈھونڈ لاتے ہیں۔جب ایندھن اکٹھا ہو جاتا ہے تو اس ایندھن سے تیار ہونے والے کھابے کے بارے میں سوچا جانے لگتا ہے، جو جلداز جلد پک جائے۔ اکثر تان سویوں پر آکر ٹوٹتی ہے کیونکہ ان کے لئے آگ کے تکلف کی ہی ضرورت پڑتی ہے۔کچھ گھروں کے لوگوں کے سویاں کھا کھا کرحافظے ہی جواب دیتے جا رہے ہیں اور وہ ایک دوسر ے کو کہتے پھر رہے ہیں شاید ہم نے آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے۔حافظے کی بہتری کے لئے اگرپلاؤ پکانے کی ٹھان لیں تو کئی جتن کرنے کے بعد جو چیز تیار ہوتی ہے وہ یا تو نمکین کھیر ہوتی ہے یا پھر بھنے ہوئے چاول جو پیٹ میں پہنچنے کے بعدہلچل مچانا شروع کر دیتے ہیں۔تھوڑی ہی دیر بعد ڈھول بھی بجنا شروع ہو جاتے ہیں اورپھر یہ چاول دھمال ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں۔کسی حکیم کی پھکی اس دھمال پر قابو پاتی ہے۔گرم پانی سے نہانا تو ایک دفعہ کا ذکر بنتا جا رہا ہے۔یخ بستہ پانی میں جب سر ڈالیں تو منہ سے اس طرح کی آوازیں نکلتی ہیں جس طرح کوئی منجھا ہوا اُستاد پکے راگ الاپ رہا ہو، سی سی سی، ری ری ری،شری ری ری ری۔ٹری رری رری راری راری۔ٹھنڈے پانی سے نہا لینے کے بعدگھر کے افراد کہنے لگتے ہیں ، پاپ سنگنگ کی ریاض تو نہیں کر رہے ہو۔ان پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے پانی سے تیمم کو ہی غسل سمجھا جارہا ہے۔پانی کو جسم سے اس قدر ہی مس کیا جاتا ہے جیسے ٹنکچر سے زخم صاف کئے جارہے ہوں۔اگر صابن لگانے کی غلطی کر ہی لی جائے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ۔یا تو پھرپھل کاٹنے والی چھری سے یہ صابن اتارنا پڑتا ہے یہ پھر کپڑے پہن لئے جاتے ہیں کہ صابن ہی ہے کوئی گریس تو نہیں خود ہی کپڑوں سے لگ لگ کر صاف نہیں ہوگی۔اِدھر الیکشن کے رنگیلے سہانے موسم بھی آ پہنچے ہیں۔امیدوار گھر گھر پہنچ کر کہتے پھر رہے ہیں کہ ہم مہنگائی کا قلع قمع کر دیں گے۔ منتخب ہونے کے چند دنوں بعد ڈیم بنوا دیں گے۔گھر والے کہہ رہے ہیں ہمیں ڈیموں کا اچار ڈالنا ہے۔ ہمیں تو تھوڑی سی گیس کہیں سے لا دیں کہ ہمارے گھر کے چولہے جل پڑیں۔امیدوار خود پر رقعت طاری کرکے کہتے ہیں آپ بھی ہاتھ اٹھائیں ہم بھی ہاتھ اٹھاتے ہیں، اللہ تعالٰی آپ کا یہ مسلہ حل کرے۔آمین ۔ ثم آمین۔ یہ کسی کی میراث تو ہے نہیں کہ جی صرف محکمہ اوقات کو ہی عمدہ خیال آ سکتا ہے یا محکمہ بلدیات ہی عمدہ خیال کی حامل ہوسکتی ہے۔ کوئی بھی عمدہ خیال کسی وقت کسی کو بھی آ سکتا ہے۔اب اگر محکمہ سوئی گیس والوں کو یہ اچھوتا خیال آ گیا ہے کہ سوئی گیس کے چولھے پھٹنے اور کمروں میں سوئی گیس کے پھیلنے کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھنے سے جا بجا حادثات ہو رہے ہیں تو کیوں نہ سوئی گیس کو ہی بند کر دیا جائے، تو دوسروں کو ان کی تخلیقی کاوش پر جلنے کی بجائے ان جیسے تخلیقی خیال کے لئے دن رات سوچ و بچار کرنی چاہیے۔اب اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں گھر میں سوئی گیس کا چولہا کھلا رہنے کی وجہ سے گیس ہر سو پھیل گئی اورخدا نخواستہ انسانی جان ضائع ہو گئی تو اس نے جھوٹ ہی بولناہے،انہی خطرات کا تدارک ہی تو محکمہ سوئی گیس والوں نے اپنی تخلیقی سوچ کی بدولت نکالا ہے۔سوئی گیس کا چولہا چاہے کھلا بھی رہے خوف کی تو کوئی بات ہی نہیں کیوں کہ جتنی چولہے سے گیس خارج ہو رہی ہوتی ہے اُس سے کسی انسان کا بے ہوش ہونا تو رہا ایک طرف کسی مکھی یا مچھر کو بھی چھینک نہیں آ سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :