سب سے بڑی قوت، قوتِ برداشت!

پیر 6 جنوری 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اس روز پروگرام توشدید مصروفیات اور کام کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کئی دنوں کی جمع شدہ ڈپریشن کو کچھ کم کر نے کے لئے کسی پُر فضا مقام پر دن گذرانے کا تھا کہ صبح سے شام تقریباایک جیسی مصروفیات انسان کے اندر غصہ اور چڑ چڑاہٹ پن پیدا کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں گھر، آفس ،روڈ بلکہ ہر جگہ انسا نوں کو جانوروں کی طرح رد عمل کرتے ہوئے پایا جا تا ہے جس کی وجہ سے بالخصو ص ہما رے معاشرے میں انسانوں کے اندر سے ” قوت برداشت“ ختم ہو تی جارہی ہے بلکہ یہ لفظ ہی نا پید ہو تا جا رہا ہے۔سیر و تفریح کامیرا فیصلہ اس وقت دم توڑ گیا کہ جب جناب قاسم علی شاہ نے قصور میں واصف علی واصف کی شخصیت پر ہونے والے سیمینار کے بارے میں بتلایا جس کا عنوان بھی”سب سے بڑی قوت،قوت برداشت!“ تھا۔

(جاری ہے)

قارئین کرام !آج تک دنیا میں جتنے بھی نبی،ولی، قلند، غوث اور ابدال آئے انہوں نے ایک زمانے کو تبدیل کیا اور جو سب سے پہلے ان میں جو چیز پیدا کی وہ برداشت ہے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ مکہ و مدینہ میں جہالت و تاریکی اپنے عروج پر تھی، لوگ ایک دوسرے کے دشمن اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار دینا یہاں کا معمول تھا۔نبی محترم ﷺ نے ان میں سب سے پہلے قوت برداشت پیدا کی جس کے بعد اجڈ، جاہل اور گنوار لوگ آنے والے دور کے بہترین لوگ قرار پائے یہاں تک کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اپنے اللہ سے۔واصف صاحب کا بھی یہ کمال تھا کہ ان کی محفل میں بیٹھنے والا شخص ایک عام آدمی نہ رہتا ۔ مایوسی اور اداسیوں کے مسافر امید کی روشنی اپنے اندر جذب کرتے ہوئے ان کی محافل سے رخصت ہوا کرتے۔آپ کی نظر کرم سے بھٹکے ہوئے راہ منزل پاتے اور نا امیدی کے زہر میں ڈوبے زندگی کو کوستے رہنے والے انسان منزل کو پاتے تھے۔آپ کی زبان سے نکلا ایک ایک حرف اپنے اندر ایک تاثیر رکھتا ہے اور مجھ جیسے مُردہ دل لوگ جناب واصف کے ان انمول موتیوں سے اپنے دلوں کو زندہ کرتے ہیں۔ فر ماتے ہیں:”جس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہو تا ہے ۔اسی طرح وقت بدلنے کا بھی ایک موسم ہو تا ہے ۔حالات بدلتے ہی رہتے ہیں، حالات کے ساتھ حالت بھی بدل جاتی ہے۔رات آجائے تو نیند بھی کہیں سے آہی جاتی ہے۔وہ انسان کامیاب ہو تا ہے جس نے ابتلا کی تاریکیوں میں امید کا چراغ روشن رکھا۔امید اس خوشی کا نام ہے جس کے انتظار میں غم کے ایام کٹ جاتے ہیں۔ امید کسی واقعے کا نام نہیں یہ صرف مزاج کی ایک حالت ہے۔فطرت کے مہربان ہونے پر یقین کا نام امید ہے“پاکستان کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں فر مایا:پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں“دکھوں سے راہ فرار حاصل کر نے والوں کے لئے ایک جگہ فر مایا:”بیوی نے خاوند کو الوداع کہا،جہاز اُڑا،خیال نے رفعتوں کو چُھوا،حوصلے بلند ہوئے ، یہ سفر آسودگی کی نوید تھا۔خاوند کو نوکری مل گئی تھی ۔وطن سے دور دیا غیر میں،تنخواہ ڈالروں میں تھی ،دن گذرتے گئے،بیوی انتظار کرتی رہی۔ خاوند کا نہیں،اس کے بھیجے ہوئے پیسوں کا۔پیسے ملے،بہت سے پیسے ملے۔مکان سجا۔فانوس لگے۔روشنی آئی۔مہمان آئے۔کھانے پکے۔رونقیں لگیں۔بس صرف گھر کا ما لک ہی گھر میں نہیں تھا۔وہ بیچارہ پردیسی ، دیس میں ہونے والی رونقوں کو کیا جانے؟،کھ دنوں کے بعد دونوں ہی دکھی تھے ۔تنہائی کا زہر ان کے وجود میں اثر کر رہا تھا۔چراغ جلتے ہی رہے اوردل بجھتے ہی رہے۔اس دکھ کا کیا علاج۔ وطن میں رہے تو مال نہیں،ما ل ملے تو وطن نہیں۔عجیب صورتحال ہے ۔ دکھوں سے بچنے کے لئے کوشش کر نے والے ایک نئے دکھ کے حوالے ہو جاتے ہیں“۔بابا بلھے شاہ کے پڑوس میں موجود ایلیمنٹری کالج میں اس خوبصورت سیمینار کا اہتما م کر رکھا تھا جہاں جناب واصف کی تعلیمات کی خوشبو سمیت اگر بتیوں کی مہک ایک الگ معطر منظر پیش کر رہی تھیں۔با با یحییٰ، برادرم اوریا مقبول جان، نور الحسن ، اثیر علی خان ، صاحبزادہ کاشف محمود سمیت برادرم عزیز قاسم علی شاہ صاحب سمیت اور کئی لوگ تھے جنہوں نے اس بارے میں لب کشا ئی کر نا تھی اور یقینا ہر ایک نے اس موضوع پر اپنی بسا ط اور علم کے مطابق بہترین گفتگو کی لیکن اپنی گفتگو کا جادو دکھاتے قاسم علی شاہ کی دل کو چھو لینے والی گفتگو نے آغاز اسے اختتام تک محفل میں بیٹھے ہر شخص کو اپنے سحر میں جکڑ ے رکھا تھا ۔”ایڈورڈ ڈیبونو کی تھیوری جس میں وہ کہتا ہے کہ انسان کے لئے وہ کچھ کرنا آسان ہوتا ہے جسے وہ ایک عرصے سے کرتا آرہا ہے ،انسان کے لئے وہ سوچنا آسان ہوتا ہے جسے پہلے سے وہ سوچتا آرہا ہے۔ہم جور سپانس دیتے ہیں ،کسی عمل کا رد عملکرتے ہیں ہمارے لئے وہ آسان تب ہوتا کہ جب پہلے سے ہم کرتے آرہے ہوں ۔اسی لئے غصہ کرنے والے کے لئے غصہ کر نا بہت آسان اور جھوٹ بولنے والے کئے لئے جھوٹ بولنا ۔لوگوں کے بیس بیس سال بد تمیزی کے تجربے ہیں اور چالیس چالیس سال ایسی زبان استعمال کرنے کے تجربے ہیں جسے کوئی برداشت نہیں کر سکتا لیکن جناب واصف علی واصف کا کمال یہ تھا کہ جن کے چالیس چالیس سال کے عدم برداشت کے تجربے تھے ان میں برداشت پیدا کردی۔برداشت تب پیدا ہوتی ہے کہ جب اس کائنات کے سب سے بڑے برداشت والے انسان سے محبت ہو جائے ۔واصف صاحب عام سے بندے کو لیکر عاشق رسولﷺ بنا دیتے تھے اور میرے مطابق جس میں برداشت نہیں ہے وہ عاشق رسول ﷺنہیں ہو سکتا۔اس لئے عاشق رسول ﷺ کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اس میں برداشت ہو گی۔نا اہل ترین کو برداشت کر نا دراصل اہلیت ہے۔ہمیں زندگی میں جنہیں برداشت کر نا ہوتا ہے یہی لوگ ہمارے اندر حوصلہ پیدا کر تے ہیں“۔قاسم علی شاہ جناب واصف کے روحانی شاگرد ہیں جن کے اندر میلے لگے ہوئے ہیں اور اپنے استاد کی سنت کو پورا کرتے ہوئے یہ لوگوں کے دلوں میں میلہ لگانے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ گہری بات کرتے ہیں جو سینے میں پیوست ہو کے انسان کو عمل پر ابھارتی ہے۔
قارئین کرام !سب سے بڑی قوت ، قوت برادشت !میں سمجھتا ہوں کہ واصف علی واصف کے اس فقرے میں زندگی کی پوری سائنس مو جود ہے ۔ہمارے قومی معاملات ہوں یا انفرادی، گھر یلو لڑائی جھگڑے ہو ں یا انسانی زندگی کے دوسرے معاملات ، اگر ہم طبیعت کو ناگوار گذرنے والے اور نا پسندید گی کے لمحات پر تھوڑا برداشت سے کام لے لیں تو ہم بڑی بڑی مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں ، ڈپریشن اور فرسٹریشن جیسے یہ الفاظ ہمارے معاشرے سے ختم ہو سکتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :