میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں۔۔۔۔!

پیر 6 جنوری 2014

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

کہانی ختم ہونے جارہی ہے شاید لیکن مجھے اس کہانی کا آغاز یاد آ رہا ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک جرنیل کا کہا ہر لفظ قانون کہلاتا تھاملک کے ارض و طول میں اس کا سکہ چلتا تھا مشیروں کی فوج تھی،درباریوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں اور ایک سے بڑھ کر ایک شاندار قصیدہ پڑھنے والے موجود تھے۔شاہراہ دستور پر کھڑے ہو کر ا مٹھیاں مضبوطی سے بھینچ کر مکا بنایا جاتا ہے پھر اس مکے کو بار بار فضاء میں لہرایا جاتا ہے پھر طاقت کے نشے میں چور جرنیل کہتارہا”ایسی جگہ سے ہٹ کروں گا کہ پتہ بھی نہیں چلے گا“ زعم ،غرور،تکبر، گھمنڈ اورطاقت کا نشہ تھا۔۔۔۔جی یہ سب کچھ اس جرنیل کے پاس وافر تھا ۔ یہ سب عجیب و غریب ہوتا کرسی،طاقت اور دولت کا نشہ ذہنوں کو مفلوج کر دیتا ہے انسان حیوان بننے کے جتن شروع کر دیتا ہے اس جر نیل کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

(جاری ہے)

۔۔ جرنیل کے حکم سے معصوم بچیوں کی خون کی ندیاں بہا دی گئیں ایک مسجدجسے لال مسجد کہا جاتا ہے جرنیل کے حکم پر اس مسجد پر لہو کا رنگ کر دیا گیا۔ قبائلیوں پر بمبوں کی بارش کروا دی گئی ہاں یاد آیا اکبر بگٹی نامی شخص نے اس جرنیل کے سامنے بولنے کی جراء ت کی تھی شاید وہ بھول گیا تھا کہ جرنیل کہہ چکا ہے”وہاں سے ہٹ کروں گاکہ پتہ بھی نہیں چلے گا“ کچھ غلط بھی تو نہیں کہا تھا کچھ بھی نہیں پتا چلا تھا جامعہ حفصہ میں والدین اپنی پیاری بچیوں کو ڈھونڈتے رہے لیکن کچھ پتا نہیں چلا قبائلی پتھروں میں اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے لیکن کچھ پتا نہیں چلا۔۔ پتہ چلا تو صرف یہ کہ خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے ۔کہانی آگے بڑھتی ہے جرنیل کی خواہش تھی کہ اس کی ریاست میں خواتین کو ”آزادی“ حاصل ہو جرنیل نے حقوق نسواں کا حق کچھ اس طرح سے ادا کیا کہ ”قوم کی بیٹیوں کو سڑکوں پر دوڑایا اور اس کو نام دیا گیا مخلوط میراتھن ریس کا۔حدود آرڈینیس میں ترمیم کے ذریعے بھی حقوق نسواں کا پرچار کیا۔۔۔۔جرنیل خود بھی آزاد تھا اور آزادی پر کچھ زیادہ ہی یقین کرتا تھا سو اس نے رقص وسروراور شراب نوشی کی محفلیں آباد کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔جرنیل امن پر یقین رکھتا تھا ”امن“ کوکیسے قائم رکھا جاتا ہے اس جرنیل نے بتایا کہ امن کو قائم رکھنے کے لئے سب سے پہلے مدرسوں میں موجود ”دہشت گردوں“ کا خاتمہ ضروری ہے پھر دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھا کہ جہاں تک اس کا بس چلا اس نے ”دہشت گردوں“ کو ختم کر دیا۔ جرنیل نے بتایا قوم کے محسن دراصل قوم کے محسن نہیں ہوتے اور ان کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں روا رکھنا چاہئے جرنیل آگے بڑھا اس نے یہ کر دکھایااس نے قوم کے ”نام نہاد“محسن ڈاکڑ عبد القدیر خان کی بے توقیری اور طویل نظر بندی کے احکامات پر مہر ثبت کر دی۔۔۔۔جرنیل کہتا تھا قوم کی بیٹیاں وہ ہو ہوتیں ہیں جو مردوں کے ساتھ میراتھن ریس میں حصہ لیتیں ہیں وہ قوم کی بیٹیاں نہیں ہوتیں جو سکارف اوڑھتی ہیں اس طرح کی بیٹیاں ۔۔۔بیٹیاں نہیں دہشت گرد ہوتیں جرنیل نے یہ بھی وقت کے ساتھ ثابت کر دیا اس نے قوم کی ”نام نہاد “ بیٹی ڈاکڑ عافیہ صدیقی کو اس کے دو ننھے دہشت گرد ساتھیوں سمیت اٹھایا اور سپر پاور امریکہ کے حوالے کر دیا۔اس جرنیل کے ”کارناموں “کی فہرست بہت طویل ہے ۔اس جرنیل کو دنیا جنرل پرویز مشرف کے نام سے جانتی ہے۔امریکی جنگ کے دوران پرویز مشرف نے امریکی ہدایات پر 689 افراد کو گرفتار کیا جن میں سے 369 افراد بشمول خواتین کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ جنرل مشرف اپنی آب بیتی ان دی فائر آف دی لائن
(In The Fire of The Line)میں اعتراف کیاکہ ہم نے ان افراد کے عوض امریکہ سے کئی ملین ڈالرز کا انعام وصول کئے۔ یہ جملہ بعد ازاں اردو ترجمہ سے حذف کردیاگیا۔ وہ MANHUNT نامی مضمون میں یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔
We have captured 689 and handed over 369 to the United States. We have earned bounties totaling millions of dollars . Page No. 237
پرویز مشرف کے گرفتار اور امریکی کے حوالے کئے جانے والے افراد میں اکثریت ان عام افراد کی تھی جو افغانستان میں تعلیمی و فلاحی یا نجی کاموں سے گئے تھے جن کو امریکہ نے گوانتا ناموبے میں کئی برس تک بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔مشرف کو بہت گھمنڈ تھا اسکو اپنے اتحادیوں پر اوراپنی طاقت پر ،ایک اشارے سے چیف جسٹس کو گھر بھیج دیا تھااور ، منتخب وزیر اعظم کو بے عزت کر کے ملک سے نکال دیا، بوڑھے بگٹی کو پل بھرمیں ختم کر دیا، آئین اور عدالتوں کی دھجیاں اْڑانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ،آج وہی مشرف ان عدالتوں کے رحم وکرم پر ہے، عوام کی نفرت کا اندازہ بھی اسے اچھی طرح ہو چکا ہے، تنے سخت سیکورٹی حصار میں جوتوں سے تواضع کی جا رہی ہے، اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ اگر یہ سیکورٹی نہ ہوتو عوام اپنی دیوانگی کا اظہار کیسے کرے گی؟؟
جس طرف بھی جاتا ہوں کہتے ہیں کہ وہ آیا
ہے چار قدم آگے مجھ سے میری رسوائی
آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت جنرل پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کے مقدمہ میں ایف آئی اے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ حقیقت طے ہوگئی ہے کہ آمر نے آرمی چیف کے عہدے اور جی ایچ کیو کو تین نومبر دو ہزار سات کے غیر آئینی حکم نامے کی تیاری کے لیے استعمال کیا۔ ا۔ یہی وہ حکم نامہ تھا جس کے تحت آئین کو بگاڑا گیا اور غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے درجنوں ججوں کو ہٹا دیا گیا تھا۔ اب یہ بات طے ہے کہ پرویز مشرف نے آرمی چیف کے عہدے اور جی ایچ کیو کو غیر آئینی حکم نامہ تیار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ایف آئی اے کی جانب سے حکومت کے سویلین عہدیداروں سے کی جانے والی اب تک کی پوچھ گچھ سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ حکم نامہ تیار کرنے میں وہ ملوث نہیں تھے البتہ اس پر عملدرآمد کے لیے یہ حکم نامہ انہیں موصول ہوا تھا۔ تین نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ کے غیر آئینی حکم نامہ میں پرویز مشرف نے کہا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم، تمام چار صوبوں کے گورنر صاحبان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، چیفس آف آرمڈ فورسز، وائس چیف آف آرمی اسٹاف اور پاک فوج کے کور کمانڈرز کے ساتھ مشاورت کی گئی تھی اور اسی مشاورت اور ملاقات میں کیے جانے والے فیصلوں کی روشنی میں ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ پرویز مشرف کی جانب سے سویلین حکام کے ساتھ ”مشاورت“ کا یہ دعویٰ کسی سرکاری ریکارڈ سے ثابت نہیں ہوسکا۔۔ سپریم کورٹ نے اپنے اکتیس جولائی دو ہزار نو کے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کا آرڈر جاری کرنے میں پرویز مشرف نے غلط بیانی کی کہ وزیراعظم، تمام چار صوبوں کے گورنر صاحبان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، چیفس آف آرمڈ فورسز، وائس چیف آف آرمی اسٹاف اور پاک فوج کے کور کمانڈرز کے ساتھ ملاقات میں صورتحال کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد اسی مشاورت اور فیصلوں کی روشنی میں ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ یہ بیان غلط تھا۔ ایمرجنسی کا نفاذ پرویز مشرف کا ذاتی عمل تھا جو حکم نامہ کے ان الفاظ سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ”میں، جنرل پرویز مشرف۔۔۔۔“ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق، جنرل پرویز مشرف کے تین نومبر دو ہزار سات کے اقدامات وجیہہ الدین احمد کے مقدمہ کے حوالے سے ان کے خدشات اور اس کے نتیجے میں بطور صدر انتخاب کے لیے نا اہل قرار دیئے جانے کا نتیجہ تھے۔ لہٰذا، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مذکورہ اقدامات عوام کی فلاح کے لیے تھے۔ واضح طور پر، یہ اقدامات انہوں نے اپنے ذاتی مفاد اور غیر قانونی فائدے حاصل کرنے کے لیے اٹھائے تاکہ ہیرا پھیری کرکے ایک مرتبہ پھر صدر کا عہدہ حاصل کیا جا سکے۔ لہٰذا ان اقدامات میں بد نیتی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ ا مذکورہ آرڈر کی تیاری میں سویلین اور فوجی حکام میں سے پرویز مشرف کی مدد کس نے کی تھی۔ اس معاملے میں جو بھی ملوث پایا گیا اسے پرویز مشرف کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سابق آمر اس معاملے میں اپنے ہی آرڈر کی وجہ سے کہیں بھاگ نہیں سکتا آج آمر کے لئے سارے دروازے بند ہیں آج ماضی کے ساتھی ایک قدم بھی ساتھ چلنے کے لئے تیار نہیں
آج پھر پوچھنے نکلا ہوں میں اپنوں کا پتہ
آج کا دن بھی گذر جائے گا روتے روتے
بے بسی دیدنی ہے کبھی کہتا فوجی کا فیصلہ فوجی عدالت ہی کر سکتی ہے اور کبھی دل کو پکڑ کر بیٹھ جاتا جی ہاں اسے کہتے ہیں مکافات عمل۔۔!اور ہاں جرنیل کہتا تھا ”میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں“ کیا آپ کو یاد ہے؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :