جا تجھے تیرے حال پر چھوڑا…

اتوار 5 جنوری 2014

Wasi Shah

وصی شاہ

کیا خبر کہانی خود الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے مگر یہ طے ہے کہ وقتی طور پر پوری قوم اس سے کہیں زیادہ اہم ایشوز اور مسائل کو چھوڑ کر ایک ایسے معاملے میں الجھی ہوئی ہے جس سے معیشت کی بدحالی لوڈشیڈنگ اور غربت سے بلبلاتی اور پسی ہوئی عوام پر ذرا بھی فرق نہیں پڑنے والا اور تو اور جو یہ دور کی کوڑیاں لے کر آتے ہیں کہ اس سے آئندہ آمریت کا رستہ رک جائے گا یا آئین کا احترام وپاسداری شروع ہو جائے گی لگتا ہے کہ نہ وہ دنیا کی تاریخ سے آگاہ ہیں نہ اپنی تاریخ سے آشنا ہیں۔ آمریت کی روک تھام اور آئین کا احترام صرف اور صرف گڈ گورننس کو یقینی بنانے سے ممکن ہوا کرتا ہے ۔ یہ اوپر اوپر کے کاسمیٹکس دکھاووں کی آڑ میں ذاتی اناؤں کی تسکین سے حالات کبھی بہتر نہیں ہوں گے بلکہ بگڑیں گے ہی۔ مجرم کو وہی پتھر مارتا اچھا لگتا ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو یا کم ازکم پچھلے داغ دھو کر آئندہ کے لیے دامن کو داغوں سے بچانے کی خواہش رکھتا ہو۔

(جاری ہے)


پسی ہوئی پاکستانی عوام کے لیے اور اس کی خدمت کے لیے وقت جتنا قیمتی اور جتنا اہم اور جتنا کم اس وقت مملکتِ پاکستان میں ہے شاید ہی کسی اور ملک میں اتنی اہمیت رکھتا ہو۔ الطاف حسین کے بیان سے لے کر بلوچستان تک سی این جی کی لائنوں میں لگی عوام سے لے کر گیس کی شارٹج کے باعث ڈنڈے لے کر گلیوں میں نکلتی ہوئی خلقت کے مسائل تک کون سا مسئلہ نہیں ہے اس ملک میں جسے حل کرنے کی جس پہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن میڈیا سے لے کر مملکت تک حکومت سے لے کر ریاست تک ہر شخص کی صلاحیتیں اور ذہن مشرف کو پھنسانے یا بچانے پر لگا ہوا ہے۔ مشرف جو ،اب ایک عضومعطل ہو چکے ہیں۔ اس سے بڑی ان کی سزا ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ ان کو ignoreکر دیا جاتا نظر انداز کر دیا جاتا۔جانے کیوں قابل اجمیری کا شعر یاد آگیا۔
جیسے ہم جان ہی نہیں رکھتے
موت کا اجتناب تو دیکھو
قوم کو رسواکرنے والے قوم کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے والے کے لیے اس سے بڑھ کر اذیت کیا ہو تی کہ کوئی ان کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتا۔ کیونکہ ان جیسا غیر اہم ہو جانے والے شخص کے لیے نظر اٹھا کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اپنی اناؤں اور ذاتی اختلاف کی بلاؤں کو پالنے کے بجائے اگر قوم کا سچا درد حکمرانوں کے دل میں ہوتا تو ضرورت کی بات نہیں تھی حکمرانوں کو مشرف کی طرف نظر اٹھا دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی۔ کیونکہ اٹھارہ کروڑ سے زیادہ عوام کہ ایک دو نہیں بیسیوں مسائل ایسے ہیں جو عوام کی گردنوں کا پھندا بنتے جا رہے ہیں۔ تعیشات نہیں جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے جوکچھ ضروری ہواکرتا ہے عوام کو وہی دستیاب نہیں۔ کیا پٹرول کی جگہ مشرف ٹرائل کو ٹنکی میں بھر کر رکشہ، وین، پبلک ٹرانسپورٹ ، موٹرسائیکل چلا سکتی ہے یہ عوام۔ کیا ڈھائی ہزار روپے پانے والی معصوم بچی ارم جو اپنی مالکن ناصرہ کے ہاتھوں ماری گئی مشرف ٹرائل کے باعث واپس آسکتی ہے یا اگر آجائے تو کیا ڈھائی ہزار کی خاطر اس کے ماں باپ بھی اسے گھر سے میلوں دور کسی پراڈکٹ کی طرح استعمال کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ اس قابل ہوجائیں گے کہ بیٹی کو اپنے پاس رکھ سکیں۔ کیا بارہ کروڑ سے زیادہ عوام جو بمشکل چار پانچ ہزار روپے کما سکتی ہے مشرف ٹرائل سے ان کی آمدنیاں چار ہزار سے بڑھ کر چالیس ہزار ہوجائیں گی؟ کیا مشرف ٹرائل سے اندھیروں میں ڈوبی مملکت نے اجالوں کا سماں ہو جائے گا۔؟ یقینا ان سب کا جواب نہیں میں ہو گا… پہلے بھی لکھا تھا پھر عرض کرتا ہوں کہ مجرم کو ہر صورت اس کے انجام تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے اور مجرم ، مجرم ہی کہلائے گا نہ اس کی حمایت کرنی چاہیے نہ اس کا ساتھ دینا چاہیے مگر یہ طے ہے کہ جب کروڑوں عوام غربت کی چکی میں چنوں کی طرح پِس رہے ہوں تو تمام تر صلاحیتیں کسی ایک مجرم کو سزا دلوانے کے بجائے خواہ وہ کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو کروڑوں عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں صرف کر دینی چاہیں۔افسوس کہ یہ بات تاجرانہ ذہن رکھنے والے سیاستدان کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ ignoreکر دینا نظر انداز کردینا دراصل موت سے بھی کہیں بڑی سزا ہوا کرتی ہے۔ موت یا پھانسی کا پھندا تو ایک بار اذیت دے کر مجرم کو ختم کرتا ہے جب کہ نظرانداز کیے جانا غیر اہم ہو جانا کسی بھی شخص کو پل پل میں سو سو بار مرنے کی اذیت سے بڑھ کر محسوس ہوتا ہے ۔جاتے جاتے پھر کسی کا شعر یاد آگیا…
اس سے بڑھ کر تِری سزا بھی نہیں
جا تجھے تیرے حال پر چھوڑا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :