تاریخ کسے زندہ رکھتی ہے ؟

ہفتہ 4 جنوری 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

تاریخ کے اوراق کنگھالتے ہوئے کچھ کہانیاں سامنے آتی ہیں جن کو ترتیب دیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا عالم پر حکمرانی کرنے والے کون سے لوگ زندہ ہیں اور کون مر گئے انہی میں سے ایڈولف ہٹلر جس کو دنیا ظالم کے نام سے جانتی ہے ۔ایک نہا یت ہی غریب گھر انے سے تعلق رکھنے والا یہ انسا ن نہ تو تعلیم میں کو ئی خاص کارکر دگی دکھا سکا تھا اور نہ ہی اپنے آرمی کیر ئیر میں ۔لیکن ایک سو شل پا رٹی میں رکنیت حاصل کر کے اسی پلیٹ فارم سے آگے بڑھتے ہو ئے چانسلر کے عہد ے تک پہنچا۔بے شمار ترقیاتی کا م کر کے جرمنی کی عوام کا ہر دل عزیز بن گیا۔لیکن آج اسے یا د کیا جا تا ہے تو ایک کروڑ70 لا کھ لوگوں کے قاتل کے طور پر ۔اسی طر ح ایک اور نام ہے چنگیز خان ۔یہ منگول سردار خاندان کا چشم وچراغ جس کااصل نام تموجن تھا۔

(جاری ہے)

شاہانہ مزاج رکھتا تھا ۔چھوٹی عمر میں ہی قبیلے کا سردار بن گیا اور جلد ہی منگولیا کے تما م سر داروں نے اسے اپنا سردار تسلیم کر لیا۔تیرھویں صد ی میں اس نے منگول آرمی کو دنیا کی مضبوط ترین آرمی بنا دیا ۔اپنی سلطنت کو معاشی استحکام دیا ۔اور اقوام عالم میں ہرطر ح سے دسترس حاصل کی ۔لیکن اس نے بھی بڑی سفاکی سے بے شمار معصوم لو گوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔اور آج اتنے زمانے گزرنے کے باوجود لوگ اسے یا د کرتے ہیں تو ایک ظالم بادشاہ کے طور پر یہ تصویر کا ایک رخ تھا ۔تصویر کا دوسرا رخ سلطان صلاح الدین ایوبی ہے تاریخ اسلام کی شہرہ آفاق شخصیت سینکڑوں جنگیں لڑی ۔مگر اخلاق کی عظیم قدروں کو چھوتا یہ کر دار آج بھی لو گوں کے دلوں میں زند ہ ہے اور یہ الفاظ سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے صرف اس لیے نہیں کہ وہ ایک مسلمان حکمران تھا اور میں بھی ایک مسلمان ہوں بلکہ اس لیے کہ اس نے مشرق و مغرب میں حق کی لڑائی لڑتے ہو ے کبھی اپنی تلوار سے انسانیت کے لیے فتح حاصل کی اور کبھی اپنے اخلاق سے انسانیت کو فتح کیا ۔یہ اس کی فتح ہی تھی کہ مشہور امریکی مصنف ہیرلڈ البرٹ نے بھی صلاح الدین ایوبی کی تعریف میں تاریخی جملے کہہ ڈالے۔سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی پر جو دواصول حاوی تھے وہ جذباتیت اور شد ت پسندی سے گریز تھا جس کی وجہ سے وہ تاریخ پر بھی حاوی ہیں اور اچھے لفظوں میں حاوی ہیں۔تصو یر کے اس رخ کادوسرا کردار ابراہام لنکن ہے ایک بڑے ہی غریب گھر انے سے تعلق رکھنے والا یہ لڑکا دھیرے دھیرے آگے بڑھا اور تاریخ کا ایک ایسا کردار بن گیا کہ لوگوں کی اس سے محبت کا انداز ہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابراہام کی والدہ کی قبر کی جگہ پر کافی ابہام پا یا جا تا ہے مگر ایک جگہ اندازًمقرر کی ہو ئی ہے اور سینکڑوں لو گ آج بھی اظہار عقیدت کے لیے روزانہ اس جگہ پر پھول چڑھاتے ہیں ابراہم لنکن کی زندگی کا مطالعہ کر نے سے پتہ چلا کہ وہ کچھ جذباتی ضرور تھا مگر شد ت پسند ہر گزنہیں تھا ۔اس کے مزاج کے اعتدال نے اسے بھی ہر دلعزیز بنا دیا اور وہ آج بھی زندہ ہے۔
2103 کے الیکشن کے بعد بحیثت قوم ہم ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم امن اعتدال اور روداری پر مبنی معاشرے کی بنیاد رکھتے اور ایک نئے پاکستان کی تعمیر کرتے ۔ لیکن ہم انتہا پسند قوم اور ملک کے طور پر جانے جارہے ہیں، کیونکہ شدت پسندی ہماری رگ رگ میں سرایت کر چکی ہے۔ہم کہاں متوازن ہیں ۔ہمارے انہی رویوں نے ایسے شد ت پسندبھی بنا دیے جو سر پر کفن باندھ کر ہزاروں جانوں سے کھیل جا تے ہیں ۔یہ سچ ہے کہ اس ملک کا قیام سچے جذبوں کی بنیاد پر ہو ا تھا،لیکن ایسے ملک کے وجود کے لیے جذباتیت کی نہیں دانش مندی کی جنگ لڑی گئی تھی۔لیکن ان 65برسوں میں ہم وہیں ہے ہم سے کچھ دیر بعد آزاد ہونے والا چائنہ کتنی خاموشی ،ثابت قدمی سے چل کر آج دنیاکے نقشے پر زبردست قوت بن کر ابھر ا ہے ۔جبکہ ہما رے ملک میں ایک واحد کمزوری ہماری جذباتیت اور شد ت پسندی ہے ۔اور ہماری یہی کمزوری ہمارے پیچھے رہ جا نے کی ایک وجہ ہے ۔اب آپ دیکھیں کہ ہمارے رویوں میں شدت پسندی کہاں نہیں ہے ایک معمولی سے معمولی مسئلے سے لے کر ایک بڑے مسئلے کے حل تک ہم جذباتیت کے اسیر ہیں۔کراچی کے حالات بھی اس کی ایک ٹھوس مثال ہے۔ہمارے گلی محلوں میں ابھی تک لوگ شعیہ سنی ،دیوبندی کی بحث میں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے میں مصروف ہیں۔معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہوتانظر آرہا ہے ۔ایک طرف جدید طورطریقوں آزاد خیال نظریوں سے خائف لوگ ،اور دوسری طرف آزاد خیال اور جد ت پسندی کے خواہاں ۔اب یہاں ایک نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ جاتی ہے۔آزاد خیال لوگوں نے آزاد خیالی کی چادر اتنی زیادہ اوڑھ لی کہ جو بنیادی ڈھانچہ تھا اس کو بھی ہلا کر رکھ دیا ۔دوسری طرف جو اس کی مخالفت کر تے ہیں ان کا رویہ بھی متوازن نہیں ۔بات اتنی آگے بڑھ جاتی ہے بات قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے ۔اس کا مطلب تو یہ ہو ا کہ اگر قتل آخر ی حل ہے تو پھر اس معاشرے میں قتل و غارت بہت عام ہو نے والی ہے ۔ لیکن یہ سب مذہب کے نا م پر ہو رہا ہے ۔رویوں کی شد ت پسندی کا سہر اہم مذہب پر ڈال رہے ہیں اور سارے عالم میں اپنے آفاقی مذہب کو بد نام کر رہے ہیں ۔ ہم دین کی بہترین خد مت کر سکتے ہیں ۔لیکن اس کے لیے پہلے اعتدال میں آنا ہو گا۔جذبا تیت کو پس پشت ڈالنا ہو گا ۔تاکہ خود کو ہٹلر یا چنگیز خان کے بجائے صلاح الدین ایوبی کی قوم کہلا سکیں۔ اور دنیا میں اپنا امیج امن پسند قوم کے طور پر کرا سکیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ہمیں توقع رکھنی ہو گی کہ ہمارے ساتھ بھی دنیا کو کوئی دلچسپی نہیں ہو گی ۔ہمیں نئے پاکستان بنانے کے لئے ہر ایک کو اس کا جائز حق دینا ہو گا خصوصاً ریاست کو کے نذدیک ہر شہری مساوی حقوق کا حق دار ہو گا اگر ریاست نے اپنے کچھ شہریوں کے ساتھ سوتیلا برتاو جاری رکھا تو پھر پاکستان میں اعتدال پسند معاشرہ خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :