نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔۔۔!

جمعرات 2 جنوری 2014

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

زاہد علی رضا:
کہا جاتاہے کہ مغل بادشاہوں نے اپنے دور سلطنت میں ہندوستان کی تمام غیر مسلم طاقتوں کو نہ صرف کچل کر رکھ دیا تھا بلکہ تقریباً تمام غیر مسلم خود مختار حکومتوں کو مٹا ڈالا تھاجبکہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ تو یہ بتاتا ہے کہ مغل باشادہ غیر مسلموں کے برعکس ہمیشہ مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف ہی بر سر پیکار رہے ۔ جن میں بابر نے لودھی پھٹانوں کے خلاف، ہمایوں نے سوری پھٹانوں سے اور اکبر نے باز بہادر کیخلاف جنگ کی جبکہ اودھ،بہار ،بنگال اور گجرات کے خلاف اکبر با ربار معرکہ آراہوا!
مغلوں نے نہ صرف کشمیر کے مسلم حکمرانوں کو بخشا بلکہ افغانستان کے آزاد قبائلوں کو بھی نہ چھوڑا جبکہ اورنگزیب نے تو اپنی عمر کے 26سال دکنی خود مختارمسلم بادشاہوں کے خلاف معرکوں میں گذاردیے ۔

(جاری ہے)

مغل بادشاہوں نے مسلمان ہونے کے باوجود ہندو رسم و رواج کے مطابق ہندو لڑکیوں سے شادیاں رچائیں اور محل کے اندر ان کیلئے چھوٹے بڑے مندر تک بھی بنوا ئے گئے۔اورنگ زیب جو مغلوں میں راسخ العقیدہ بادشاہ جانا جاتا تھانے بھی نہ صرف ہندؤ راجپوت رانی سے بیاہ کیابلکہ اپنے بیٹے معظم کی شادی بھی راجہ روپ سنگھ کی بیٹی سے بڑی خوشی سے طے کی۔
مسلم مغل بادشاہوں کا مذہبی اور اخلاقی تفریق کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ بے پناہ مراسم کا تسلسل، مذہبی احکامات کے بر خلاف غیر مسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرائے بغیر اُن سے شادی اور پھر اُنکے مذہبی رسم و رواج اور عبادت کے لئے مسلم محلات میں مندروں کی تعمیر ایسا طرز عمل تھا جس سے مغل بادشاہوں کا اسلامی اوراخلاقی تشخص بُری طرح مجروح ہوا۔ مغلوں کی جانب سے مسلم فرمانروراؤں سے محاذ آرائی اور ہندووٴں و سکھوں کے ساتھ تادیبی روابط کے باوجود برصغیر کی غیر مسلم طاقتوں نے اُنہیں ظالم وجابر گردانا اور اپنے مسلمان بھائیوں کو نظرانداز کرکے جن لوگوں کے قصیدے مغل بادشاہ اور متعصب مئورخین اپنے دور میں پڑھتے رہے اُنہی کی چالاکی و مکاری سے مغلوں کا تابناک دور گُل ہوا۔
تاریخ شاہدہے کہ مسلمانوں کو کبھی بھی طاقت کے زور پر شکست نہی دی جا سکی مسلمانوں کوجب کبھی بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہمیشہ اپنے ہی لوگوں کو فتح کرنے کے سلسلے میں ہوا جس سے مسلم طاقت کوناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔اُج بھی غیر مسلموں کی شہ پر مسلمان اپنے ہی بھائیوں کے خلاف اًلہ کار بنا ہوا ہے، آج بھی عین اسی طرح مذہبی روائیات ،مسلم بھائی چارہ ، مسلم سلامتی کو پس پشت ڈال کر غیروں کی خوشنودی کیلئے کام جاری ہے۔اپنے ہی مسلمانوں کو اپنے ہی لوگوں کے ذریعے طاقت کے زور پر فتح کرنے کی کوشش آج بھی جاری ہے۔اُج بھی مذہبی اُصولوں اور روائیات کو نظر انداز کرکے ،صرف ا پنی پوزیشن ، حیثیت و بادشاہت کے دوام کیلئے آئی ایف کی شکل میں اپنے ہی لوگوں کا گلا گھونٹنے کوشش کی جا رہی ہیں۔ کل مطلق العنان حکمران اکبر اپنے خود ساختہ اسلامی اور سماجی ا ُصولوں کے نام پر اپنے ہی لوگوں کو فتح کرتا رہا اور آج بھی اُسی لڑی کے دس فیصد لوگ اکبر عظم کی سنت کو 66 سال سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ پوری قوم کاچہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے ان نام نہاد لبرل رشن خیال اور اسلامی انتہا پسندوں نے،ستم ظریفی یہ ہے کہ میڈیابھی اپنیrating کی دوڑ میں اکبری سوچ کی ترویج کیلئے اپنا بھر پور حصہ ڈال رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہندو کلچرکی یلغار سے قوم کو دوسروں کے کلچر میں بُری طرح دکھیلا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی بچی کُچی اسلامی شناخت کو Religion Free فارمولا کی بھینٹ چڑہایا جارہا ہے۔میڈیا میں مثبت ،تعمیری اور قومی سوچ رکھنے والا جب unidentified کلچرکے خلاف آواز اُٹھاتا ہے تو اُسے فرسودہ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔جبکہ میڈیامیں طلعت حسین،انصار عباسی،معید پیرزادہ جیسے لوگ تھنک ٹینک کا درجہ رکھتے ہیں جن سے حکومت وقت بھر پور مستفید ہو سکتی ہے،اب طلعت حسین جیسی میڈیا کی قدآور شخصیت کو گورنر کے عہدے کی پیشکش اسکی شخصیت کی سراسر توہین تھی جبکہ تھنک ٹینک کے سربراہ کے طور پر اُنکی خدمات لی جاتیں تو میری دانست میں یہ نہ صرف اُنکے شایان شان ہوتا بلکہ ملک کیلئے بھی ایک اعزاز ہوتا۔ملک میں ایسے بیشمار لوگ ہیں جو اپنے ideasاورplannings سے ملک کو ایک ایسے ٹریک پر ڈال سکتے ہیں جو ہماری اسلامی تہذیب ،روایات اور دور جدید کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ مگر کیا کیجئے بدقسمتی سے ہمارے ہاںintellectuals کوreadکرنے کی بجائے ہمیشہ ’چڑیا‘ پر بھروسہ کیا گیا۔دنیا میں دو ملک نظریات کی بنیاد پر معرض وجود میں آئے ،ایک اسرائیل دوسرا پا کستان جو آئینی لحاظ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔اسرائیل تو اپنے نظریات و منشور کو لئے آج بھی عمل پیرا ہے جبکہ پاکستان جس کی بنیادو قومی نظریے پر ہے یعنی ہمارا دین ،ہمارا رہن سہن ، ہمارے رسم و رواج دوسری قوموں سے بالکل مختلف دین اسلام کے عین مطابق ہیں مگربد قسمتی سے ہم اپنے نظریے کے عین بر عکس ہیں۔تاریخ سے ناواقفیت قوموں کوتاریک دورمیں لے جاتی ہے لہذاابھی وقت ہے اپنی سمت بدلنے کا،اپنے مذہب اور اپنے لوگوں کو پہچاننے کا۔ اپنوں پہ ستم اور غیروں پر کرم کی سو برس پر محیط مغلیہ ریت سے سبق نہ سیکھا گیا تو ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، نہ خُدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :