پا کستان میں نئی لیڈرشپ ، وقت کی اہم ضرورت

جمعہ 3 جنوری 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

منور علی شاہد ۔ جرمنی:
پاکستان کی سیا سی تا ریخ پر نظر دوڑائیں اور فکر کے ساتھ غور کریں تو بہت کچھ عجب سا لگتا ہے۔اور وہ سب کچھ ا تفاق نہیں ہو سکتا۔نصف صدی کا عرصہ معمولی نہیں ہوتا،اور آج دنیا کی بہت سی حکومتیں ایسی موجود ہیں جنہوں نے اسی عرصہ کے دوران ہی ستاروں پر کمند ڈالنے کی کہاوت کو سچ کر د کھایا۔اور وہ آج عزت اور و قار کے ساتھ مزید آگے کی طرف بڑھ ر ہے ہیں۔جبکہ ہمارے قدم بد قسمتی سے مسلسل پیچھے کی طرف جا رہے ہیں،عوام کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،ان کی حا لت بارے جتنا بھی لکھا جا ئے وہ کم ہے ملکی اداروں میں ا ستحکام آنے کی بجائے وہ سب مسلسل زوال پزیر ہو رہے ہیں۔ان کی کارکردگی اور کرپشن سکینڈل ہر روز اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی سے مرا د ر یاستی اداروں کی ترقی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

اور جب اداروں کی حالت ایسی ہو جائے جیسی آج کل ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز ،سمیت دیگر اداروں کی ہے تو پھر ملک کے مستقبل بارے اندازے لگانے اور عوام کی مشکلات کو سمجھنا مشکل نہیں ہوتا۔المیہ یہ ہے کہ وقت گزر رہا ہے اورایک حکومت کے بعد دوسری اور پھر تیسری حکومت آتی اور چلی جاتی ہے لیکن استحکام کہیں بھی پیدا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ملک قوم کے بہترین مفاد میں ایک حکومت فیصلہ کرتی ہے تو اگلی حکومت میں ایسے سب فیصلے ملکی مفاد کے خلاف قرار دیئے جاتے ہیں، یہی و جہ ہے کہ تا حال ابھی تک کوئی بھی ایسا منصو بہ سامنے نہیں جو کئی حکومتوں کے اتفاق رائے کو ظاہر کرے ، ایک حکومت کے دور میں بھرتی کئے ہوئے لوگ اگلی حکومت میں سیاسی فیصلوں کے ا لزام کے تحت بیر وزگار کر دیئے جاتے ہیں،ہر حکومت ا قتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے پولیس، انکم ٹیکس ، عدلیہ، اور بیو رو کریٹس کے تبادلے کرتی ہے۔ اور یہی وہ راستے ہیں جو ا نتقامی کاروائیوں کی طرف حکومتوں کو لے جاتے ہیں،اور بعد ازاں ذاتی و جماعتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بھی بن جا تا ہے۔یہ ریاستی اداروں میں سیاسی جماعتوں کی کھلم کھلا مداخلت ہے۔برسوں سے جاری اس مشق نے آج تک کسی بھی ادارے کو مضبوط نہیں ہونے دیا۔اس صورت حال کا ذمہ دار کسی ایک فرد یا جماعت کو نہیں قرار دیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسی اجتماعی غلطی ہے جس کو آج بھی د ہرایا جا رہا ہے اور اس کی ذمہ داری ماضی و حال کے سیاستدانوں اور فوجی حکمرانوں دونوں پر عائد ہوتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ قومی سطح پر جتنے بھی بحران پیدا ہوئے ہیں ان کا یا تو کوئی حل ہی نہ نکالا جا سکا اور یا پھر اپنے دور حکومت کی معیاد کو د یکھتے ہوئے پالیسیاں بنا ئی گئیں لیکن مستقبل بنیادوں پر مربوط کو ئی بھی منصوبہ نہ شروع ہوا اور نہ ہی مکمل ہوا۔اس کی سب سے شرمناک مثال کالا باڈیم کی ہے۔مسلم لیگ ن اور پی پی پی کو دو مر تبہ حکومت کرنے کے مواقع ملے لیکن کوئی بھی کالاباغ ڈیم کا آغاز نہ کر سکا اسی طرح پرویز مشرف کی فوجی حکومت بھی ناکام رہی،یہ ایک طرح کی سیاستدانوں سمیت تمام اداروں کی ناکامی اورنا ا ہلیت کا ثبوت ہیسابقہ حکومت پی پی پی کی تھی جس نے پا نچ سال مکمل کئے لیکن وہ بھی کالاباغ کی تعمیر پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ یہ شائد دنیا کا واحد قومی منصوبہ ہے جس پر خود اس ملک کی سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے نہیں ہو رہا جبکہ بجلی کے بحران کے نے ملک کے طول و عرض میں غربت ، بیروزگاری کی شکل میں منفی ا ثرات مرتب کئے ہیں لاکھوں افراد بیروزگار ہوئے تو گھروں میں فاقہ کشی شروع ہو گئی اور جس کا مزید آگے خمیازہ خودکشیوں اور گھریلو جھگڑوں کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ایک جا ئزہ کے مطابق ماہانہ ایک صد اور پچاس افراد انہی حالات کے سبب خود کشیاں کر رہے ہیں ۔ہمارے نا اہل اور اقراء پروری کی بدولت اداروں پر قابض وزراء کی نا اہلیت کا خمیازہ قوم بھگت ر ہی ہے۔ایک حدیث مبارکہ ہے کی غربت مومن کو کفر کی طرف لے جاتی ہے۔اس کی عمل تفسیر پاکستان میں جسم فروشی اور خودکشیوں کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ غربت کے باعث نا قابل بیان حادثات اور وا قعات جنم لے رہے ہیں، معصوم بچوں کی فروخت کیا روز کا معمول نہیں بنتی جا رہی ہے؟ غربت کے باعث مائیں بچوں سمیت نہروں میں کود کر خودکشی نہیں کر رہی ہیں۔؟پس حقیقت یہی ہے کہ ملکی موجودہ سیاسی لیڈر شپ، اپوزیشن سمیت اداروں کو بحرانوں سے نکالنے کی ا ہلیت نہیں رکھتے۔موجودہ و فاقی وزیر خزانہ نے اس بات کا ا قرار کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے نومبر 2013 تک 206ارب روپے کے نوٹ چھاپے ہیں۔نوٹ چھاپ چھاپ کر ادارے چلانے والے ملک کو پیرس بنانے کا دعویٰ کس اہلیت کی بنیاد پر کرتے ہیں جبکہ ان کی نا اہلیت کھل کر دنیا کے سامنے ظاہر ہوچکی ہے۔ اس تمام صورت حال کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔اور اگر اس المناک صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بہت سی و جوہات میں ایک وجہ سیاسی رواداری اور بصیرت کا فقدان ہے۔خاص طور پر سیاسی بصیرت کے فقدان نے ملکی معاملات کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔خارجہ پالیسی کی ناکامی کی وجہ بھی یہی ہے۔ا ندرونی ناکامیوں اور بگڑتے معاملات نے دیگر عا لمی معاہدوں اور ریاستی تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ہمیشہ عارضی فا ئدہ ہی پیش نظر رکھا گیا جبکہ مستقبل کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔جس ملک کے سیاست دانوں کا مٹی پاؤ ، تکیہ کلام ہو وہاں کیونکر عوام کا بھلا ہو گا۔۔؟ موجودہ بگاڑ کی دوسری و جہ اپو زیشن کا ملکی اور قومی مفاد میں حکومت وقت کا ساتھ نہ دینا ہے۔ہر ملک میں اپو زیشن مو جودہ ہے لیکن انکے کردار اور ہمارے ہاں کے کردار میں بہت فرق ہے۔کالا باغ ڈیم کی مثال سامنے ہیں دونوں حکومتوں کا طرزعمل مختلف رہا ہے۔حکومت میں اور اور اپوزیشن کرتے وقت اور۔۔؟پس یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ دور حاضر کے مورثی سیاستدانوں ، خاندانوں سے پاکستان چلانا ممکن نہیں بلکہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان سب سے پاکستان کو بچایا جا ئے۔ اور مڈل کلاس سے نئی لیڈرشپ پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :