ہزارہ بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں

جمعہ 3 جنوری 2014

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی


عمرخان جوزوی:
نہ جانے کس کی نظرلگ گئی۔ملک کے دیگردہشت زدہ حصوں کی طرح ہزارہ کو بھی آخرکار دہشتگردی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مانسہرہ میں ایک ہی دن دو بم دھماکوں جن میں ایک پولیس کانسٹیبل شہید اور چھ افراد زخمی ہوئے نے ہزارہ کی پوری فضا سوگوار کر دی۔ ہزارہ جو امن کا گہوارہ تھا اور لوگ یہاں بے خوف و خطر زندگی گزار رہے تھے مانسہرہ بم دھماکوں نے عوام کو انتہائی خوفزدہ کردیا ۔ ایک ہی دن میں دو بم دھماکوں سے نہ صرف مانسہرہ بلکہ جھاری کس سے کوہستان تک خوف و ہراس کے بادل چھا گئے ہیں اور اب پشاور،لاہور،راولپنڈی،کراچی اور کوئٹہ کی طرح ہزارہ بھر کے عوام بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ پشاور سمیت ملک کے دیگر شہروں میں دہشتگردی کے نام پر لگی آگ کے بے رحم شعلوں کا ہزارہ تک پہنچنا یقینی طور پر اہلیان ہزارہ کے لئے کسی خطرے سے کم نہیں۔

(جاری ہے)

مانسہرہ میں چکڑیالی روڈ اور پنجاب چوک کے قریب ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری تو کسی نے قبول نہیں کی لیکن ایک بات جو واضح ہے وہ یہ کہ ان دونوں دھماکوں کے ذریعے پولیس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ پہلے دھماکے میں تو پرائیوٹ سوزوکی جو پولیس وین سے آگے نکلی نشانہ بنی اور اس میں تین افراد زخمی ہوئے لیکن پنجاب چوک کے قریب ہونے والے دوسرے دھماکے میں پولیس وین نشانہ بنی اور اس میں ایک پولیس کانسٹیبل شہید جبکہ کئی اہلکار زخمی ہوئے۔ مانسہرہ بم دھماکوں میں پولیس کو نشانہ بنانے سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان دھماکوں کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ سابق ڈی پی او مانسہرہ عبدالغفور آفریدی کے تبادلے کے بعد مانسہرہ میں تعینات ہونے والے نئے ڈی پی او خرم رشید نے بھی اشتہاریوں،مفروروں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے اور اس سلسلے میں یکم جنوری کو جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کلین اپ کے لئے تیاریاں بھی تقریباً مکمل کر دی گئی تھیں۔ اس لئے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ شائد جرائم پیشہ افراد نے یکم جنوری کے آپریشن کو روکنے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہو۔درحقیقت مانسہرہ کے ان دھماکوں نے سیکورٹی اداروں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ مانسہرہ جیسے پر امن شہر میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے کوئی معمولی بات نہیں۔ چند روز قبل ہی ڈی آئی جی ہزارہ نے ہزارہ کے عوام کو یہ خوشخبری دی تھی کہ ہزارہ کے تین اہم مقامات جن میں ایک مقام مانسہرہ کا بھی ہے میں خفیہ کیمروں کی تنصیب کا کام شروع ہے اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دہشتگردی کی روک تھام اور امن و امان کے قیام کو برقرار اور یقینی بنانے کیلئے ہزارہ کی پولیس کو جدید آلات سے لیس کر دیا گیا ہے ۔ جدید آلات کی فراہمی کے بعد بھی اگر پولیس اہلکاروں اور افسروں کی جانیں محفوظ نہیں تو عام شہریوں کا کیا بنے گا۔۔۔۔۔۔؟ کیا مانسہرہ پولیس کو جدید آلات فراہم نہیں کئے گئے اگر کئے گئے تو وہ کس قسم کے ہیں اور وہ کب کام آئیں گے۔۔۔۔۔؟ مانسہرہ دھماکوں میں پولیس کانسٹیبل کی شہادت سے تو یوں لگ رہا ہے کہ مانسہرہ کے پولیس اہلکار بھی عام شہریوں کی طرح حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہزارہ میں دہشتگردی کی روک تھام اور امن و امان کا قیام یقینی بنانے کے لئے سب سے پہلے پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کی جانیں محفوظ بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہونگے۔اگر پولیس اہلکار اور عوام کے محافظ ہی بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے سرعام نشانہ بنیں اور ان کی اپنی جانیں محفوظ نہ ہوں تو پھر امن کا قیام کیسے ممکن ہو گا۔۔؟ سیکورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ ہزارہ کی سیاسی قیادت کو بھی مانسہرہ بم دھماکوں کے بعد ہزارہ سے دہشتگردی اور خوف و ہراس کے سائے ختم کرنے کے لئے بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ مانسہرہ سمیت ایبٹ آباد، بٹگرام اور ہریپور میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کسی معجزے کا انتظار کئے بغیر سخت اقدامات اٹھانے ہونگے کیونکہ جرائم پیشہ افراد کے ہوتے ہوئے نہ صرف مانسہرہ بلکہ ہزارہ کے کسی بھی شہر میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ ادھر ہریپور کے سرکاری سکولوں میں شدت پسندوں کی جانب سے دھمکی آمیز پمفلٹ کی تقسیم کا کھیل بھی شروع ہو گیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب مانسہرہ کے در و دیوار بم دھماکوں سے ہل چکے اورخوف کے مارے عوام کے دل دھڑک رہے ہیں ہزارہ میں دھمکی آمیز پمفلٹ کی تقسیم کسی پریشانی اور خطرے سے ہرگز خالی نہیں ۔سیکورٹی اداروں کو سب سے پہلے ان شدت پسندوں کا سراغ لگانا ہوگا جو دھمکی آمیز پمفلٹ کے ذریعے عوام میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں اگر فوری طور پرہزارہ میں دھمکی آمیز پمفلٹ کی تقسیم کا کھیل نہ روکا گیا تو پھر یہ کھیل ہزارہ میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے جس سے پھر پولیس اہلکاروں کے علاوہ ڈاکٹر، انجینئر، سیاستدان، علماء اور عام شہری بھی بری طرح متاثر ہونگے۔ اس لئے اب وقت ہے کہ مار دھاڑ اور خوف و ہراس کے اس سلسلے کو یہیں روک کر پرامن ہزارہ کو تباہی سے بچایا جائے ورنہ پھر کسی کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ منتخب ممبران اسمبلی اور سیاسی قیادت کو پر امن ہزارہ کو تباہی سے بچانے کے لئے اب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی آگے آنا ہوگا۔ اگر منتخب ممبران اور سیاستدان مانسہرہ بم دھماکوں کو معمول کی کارروائی یا چھوٹا واقعہ قرار دے کر سیاسی سوداگری اور تجاوزات کے خلاف آپریشن سمیت دیگر انتظامی معاملات میں انگلیاں مارنے میں اسی طرح مصروف رہے تو پھر ان کو ایک بات یاد رکھنی ہوگی کہ ہزارہ کا امن توان کی غفلت اورلاپرواہی سے تباہ ہو ہی جائے گا لیکن پھر ان کی سیاسی دکانداری بھی کسی طرح نہیں چلے گی کیونکہ ان کی سیاست کے لئے بھی پر امن ہزارہ ضروری ہے اگر ہزارہ میں امن نہیں ہوگا تو پھر یہ سیاست کیسے اورکہاں کریں گے۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :