مشرف کے لیئے دو آپشن!!

جمعرات 2 جنوری 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

محمد عرفان ندیم:
تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے اور یہ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی۔ آپ تاریخ کا انتقام ملاحظہ کریں ۔قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات ہوئی خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بن گئے۔ابھی دو سال بمشکل گزرے تھے کہ لیاقت علی خان کو راوالپنڈی میں گولی مار دی گئی ۔خواجہ ناظم الدین نے گورنری چھوڑ کر وزارت عظمی کے پیچھے دوڑ لگا دی ،تقدیر نے ساتھ دیا اور خواجہ صاحب وزیر اعظم بن گئے ۔غلام محمد کو ان کی جگہ گورنر جنرل بنا دیا گیا۔غلام محمدگورنری ملنے کے بعد ”بادشاہ“بن گئے اور انہوں نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا ،خواجہ صاحب اس وقت جمعے کی نماز کے لیئے جا رہے تھے جب انہیں ان کی برطرفی کی خبر دی گئی ،خواجہ صاحب پر یہ خبر بجلی بن کر گری اور وہ چند لمحوں کے لیئے زمین میں گڑ کر رہ گئے ۔

(جاری ہے)

خواجہ صاحب نے گورنر جنرل سے شکوہ کیا ”سر!جب میں گورنر جنرل تھا اور لیاقت علی وزیراعظم تو میں نے تو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا “غلام محمدنے بڑی حقارت سے خواجہ صاحب کی طرف دیکھا اور بولے ”نا تم لیاقت علی خان ہو اور نا میں خواجہ ناظم الدین“ اور اس کے بعد خواجہ ناظم الدین کبھی وزیراعظم ہاوٴس میں نظر نہیں آئے۔غلام محمد نے محمد علی بوگرہ کو نیا وزیر اعظم مقرر کیا،کچھ ہی عرصے بعد غلام محمد بیمار ہوئے اور ان کے نامزد کردہ وزیر اعظم نے انہیں دو ماہ کے لیئے رخصت پر بھیج کر ان کے سیاسی کیرئر کا ہمیشہ کے لیئے خاتمہ کر دیا ،گور نر جنرل جب ایوان اقتدار سے نکلے تو ان کی بے بسی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور وہ ایوان صدر سے نکلتے ہو ئے پاگلوں کی طرح چیخ و پکار کر رہے تھے ۔غلام محمد کے بعد اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنایا گیا ،اسکندر مرزاکو اقتدار کی شراب بہت اچھی لگا اور انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیئے مختلف حیلے بہانے شروع کر دیے ،اس کے لیئے اسکندر مرزا نے ایوب خان کا سہارا لینے کی کوشش کی اور انہیں اپنی کابینہ میں شامل کر لیا ،ایوب نے صرف تین دن بعد اسکندر مرزا کو ایوان اقتدار سے رخصت کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا،اسکندر مرزا بڑی خاموشی سے ایوان اقتدار سے نکلا اور بقیہ عمر لندن کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں گزار دی ،ایوب خان نے فوجی وردی کا سہارا لیتے ہوئے دس سال حکومت کی اور سارے سیاست دانوں کے ناک میں دم کیئے رکھا ،ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا ”سیاسی متبنیٰ“بنایا تھا اور انہیں اپنا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا اسی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے بعد ”ایوب کتا ہائے ہائے “کے نعرے لگوائے اور ایوب خان کو ٹف ٹائم دیا ۔اپنے اقتدار کے سورج کو غروب ہوتا دیکھ کر ایوب خان نے اپنے اختیارات عارضی طور پر تین ماہ کے لیئے یحی خان کو سونپ دیئے ،ابھی آسمان کا سورج غروب بھی نہیں ہوا تھا کہ ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا ،یحی خان نے ایوب خان سے استعفی لے کر اسے ایوان اقتدار سے رخصت کر دیا ،دو دن بعد جب صدر ایوب ایوان اقتدار سے رخصت ہو رہے تھے تو ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب تھا اور جب ان کی گاڑی ایوان صدر سے نکلی تو وہ بار بار پیچھے پلٹ کر ایوان صدر کی طرف دیکھتے اور اپنی بدقسمتی پر آنسو بہاتے تھے ،جاتے ہوئے ان کی گاڑی کے ساتھ سوائے دو سکیورٹی گارڈزکے اور کوئی نا تھا اور وہ ایوان صدر سے نکل کر سوات کی پہاڑیوں میں گم ہو گئے ،ایوب خان کی گاڑی جب ایوان صدر سے نکلی تو اسی کے ساتھ ان کے اقتدار کا جنازہ بھی نکل گیا تھا ۔بھٹو کے قلم نے ضیاء کو آرمی چیف بنایا اور اسی ضیاکے قلم نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا ۔اورتاریخ کا خوفناک انتقام نوے کی دہائی کے بعد شروع ہوتا ہے ،نوازشریف نے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفا لے کر اور جنرل علی قلی خان کو مسترد کرتے ہوئے پرویزمشرف کو آرمی چیف بنا یا اور کچھ ہی عرصے بعد وہی پرویزمشرف نواز شریف کے زوال کا پیغام لے کر آیا ۔یہ تاریخ کا خوفناک انتقام تھا اور تاریخ نے آج تک کبھی کسی کو معاف نہیں کیا ۔تاریخ صرف انتقام نہیں لیتی بلکہ وہ خود کو دہراتی ہے اور آج ایک مرتبہ پھر تاریخ خود کو دہرانا چاہتی ہے ،تاریخ کا ایک اور انتقام شروع ہو چکا ہے اور اس بار تاریخ کا مجرم سابق ڈکٹیٹڑ ہے ۔وہی ڈکٹیٹر جس نے دو بار آئین توڑا ،عدلیہ کے تقدس کو پامال کیا ،ججز کو نظر بند کیا ،لال مسجد میں سینکڑوں افراد کو شہید کروایا ،اکبر بگٹی کو قتل کروایا ،اسلامی شعائر کی توہین کی ،ملک کی منتخب حکومت کی برطرف کیا ،عافیہ سمیت سینکڑوں افراد کو پکڑ کر امریکہ کو حوالے کیا ،ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کی بھرپور کوشش کی ،حدوداللہ کو ختم کیا ،میڈیا اور پریس پر پابندیا ں لگائی ،امریکہ کو اڈے دیے ،ڈرون حملوں کی اجازت دی ،روشن خیالی کے نام پر فحاشی و عریانی کو فروغ دیا ،ملک میں لوڈشیڈنگ کے عفریت کو جنم دیا اورقوم کو خود کش حملوں کا تحفہ دیا ۔
لیکن یہاں ایک اور پہلو بھی ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ،یہ بھی حقیقت ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں ملک نے ترقی کی تھی اور ہم بڑی تیزی سے ترقی یافتہ ممالک کی طرف دوڑ رہے تھے ،روپے کی قدر مستحکم رہی ،بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ،زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ،لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر رہی ،عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہو ا ،بیرونی قرضے بڑی حد تک کم ہو گئے ،اشیاء ضروریہ کی قیمتیں کنٹرول میں رہی ،ڈیزل اورپٹرول کی قیمتیں مستحکم رہیں ،گیس بحران قدرے کم رہا ،ریلوے اور پی آئی اے کی کارکردگی تسلی بخش رہی ،شرح خواندگی میں اضافہ ہو ا،اعلیٰ تعلیم کے لیئے بننے والی یونیورسٹیوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ،پاکستان اقوام متحد ہ کا سرگرم رکن رہا،جنوبی ایشیا میں پاکستان کو اہم حیثیت حاصل رہی ،پاکستان ا خلاقی طور پر انڈیا سے آگے رہا ،عالمی سیاست میں پاکستان کا کردارتسلی بخش رہا اور عالمی سیاست میں پاکستان کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔یہ سب حقیقت ہے اور ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے ۔اس ساری صورتحال کے پیش نظر سابق ڈکٹیٹر کے پاس صرف دو آپشن بچتے ہیں ،ایک ،وہ میڈیاپرآئیں اور اپنے ان جرائم کا اعتراف کریں ،وہ کیمروں کے سامنے بیٹھ کر پوری قوم سے معافی مانگیں ،اپنی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں کا اعتراف کریں ،قوم کے سامنے جھک جائیں اور پوری قو م سے معافی کی اپیل کریں ،وہ لاپتہ افراد ،لال مسجد میں شہید ہونے والوں اور اکبر بگٹی کے لواحقین سے انفرادی طور پر معافی مانگیں اور اپنے لہجے میں تبدیلی پیدا کریں ۔اور اگر وہ قوم سے معافی مانگیں تو قوم کو بھی چاہیے کہ ان کے ”اعتراف جرم“کے بعد انہیں معاف کر دیں اور ان کے جرائم کو نظر انداز کر دیں ۔ایک صدر ہونے کے ناطے سے نہیں بلکہ ایک آ رمی چیف کی حیثیت سے،عوام کی اس بلند حوصلگی سے فوج کو اچھا پیغام جائے گا اور فوج کا کھویا ہوا وقار دوبارہ سے بحال ہو جائے گا۔ویسے بھی اگر پرویز مشرف کو تختہء دار پر لٹکا دیا جائے تو یہ بیس کروڑ عوام ایک آرمی چیف کا سر لے کر کیا کرے گی ،شاید پھر ہم بھٹو کی پھانسی کی طرح اس پر بھی کف افسوس ملیں اور آنے والی نسلیں ہماری کم ظرفی کا ماتم کریں ۔اور اگر پرویز مشرف اس پہلے آپشن کے لیئے تیا ر نہیں تو پھر ان کو چاہیے کہ وہ تاریخ کے انتقام کے لیئے تیا ر رہیں کیوں کہ تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے اور یہ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :