بلوچستان میں چار نہیں 40لاکھ ناراض بلوچ ہیں، مری معائدہ کے تحت اقتدار کی بندربانٹ کی گئی تو بلوچستان میں مزید ناراض بلوچوں میں اضافہ ہوگا، بلوچستان سے اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے پہاڑوں اور باہر جانے والے ناراض بلوچستان سے بااختیار مذکرات کیلئے ذمہ داری دی گئی تو ہم وعدے اور دعوے کرنے کے بجائے عملی اقدام اٹھائیں گے

بندوق گولی اورجنگ سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکا ،بامقصد مذکرات کی میز ہی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے،جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات وسابق سینیٹر حافظ حسین احمد کی میڈیاسے گفتگو

منگل 1 دسمبر 2015 22:19

سبی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔یکم دسمبر۔2015ء) جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات وسابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ بلوچستان میں چار نہیں 40لاکھ ناراض بلوچ ہیں، مری معائدہ کے تحت اقتدار کی بندربانٹ کی گئی تو بلوچستان میں مزید ناراض بلوچوں میں اضافہ ہوگا بلوچستان سے اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے پہاڑوں پر اور باہر جانے والے ناراض بلوچستان سے بااختیار مذکرات کیلئے ذمہ داری دی گئی تو عملی اقدام اٹھائیں گے بندوق گولی جنگ سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکا بامقصد مذکرات کی میز ہی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے ان خیا لات کا اظہار انہوں نے یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی معاون سیکرٹری اطلاعات سید آغامحمد ایوب شاہ ، ضلعی امیر مولوی عطاء اﷲ بنگلزئی، مولوی محمد عارف، محمد شعیب مرغزانی ڈسٹرکٹ پریس کلب جیکب آباد کے صدر زاہد حسین رند، ڈسٹرکٹ پریس کلب سبی کے میر جاوید بلوچ، نائب صدرحاجی سعید الدین طارق، ڈپٹی جنرل سیکرٹری طاہر عباس، آل پاکستان جرنلسٹس کونسل (ر) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سید طاہر علی ، میر زاہد چانڈیہ ، اعجاز احمد رند بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے کہا کہ بلوچستان میں حکمران ٹولہ اپنی مدت ملازمت بڑھانے کی کوشش میں سرگرم ہے صوبے کے حقوق پہاڑون پر موجود ناراض نوجوان ساحل وسائل کے اختیارات اقتصادی راہدری کامسئلہ سمیت دیگر سلگتے مسائل کو پس پست چلے گئے ہیں سب سے بڑی اہمیت مزید ڈھائی سال لینے کی کوشش کو حاصل ہوچکا ہے مری معاہدہ سے انحراف کیلئے میڈیا میں بڑے بڑے اشتہارات دئیے جارہے ہیں لیکن شاہد اصل مسئلہ یہان پر بھی سہولت کار یعنی تھرڈ ایمپائر کی انگلی اٹھانے پر ہی حل ہوتا نظر آرہاہے وزارت اعلیٰ کا تاج کس پر رکھا جائے گا یہ تو وقت ہی بتا سکتاہے سیاسی جماعتوں میں پارلیمانی معاہدے واتحاد ہوتے ہیں جو ایک بنیاداور ایک فیصلے کے مطابق ہوتے ہیں بلوچستان میں 70کی دہائی میں الیکشن کے موقع پر جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیاں معاہدہ ہوا جس کے تحت بلوچستان میں سردار اختر جان مینگل اورخیبر پشتونخوا(سرحد) میں مولانا مفتی محمود کی حکومت وجود میں آئی تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نوماہ میں ہی بلوچستان میں حکومت کو ختم کرتے ہوئے سرحد میں مفتہ محمود کی حکومت کو برقرار رکھا تاہم مفتی مولانامحمود نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے مستٰفی ہوئے اور اپنے قول وفعل پر قائم رہے اس کے بعد اب نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیاں مری معاہدہ عمل میں آیا ڈھائی سال ہوچکے ہیں معاہدہ پر عمل درآمد کرنا اب ان کا کام ہے حافظ حسین احمد نے کہا کہ ڈھائی سال کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بلوچستان کے مسائل ناراض بلوچ یاد آئے ناراض بلوچون سے مذکرات کرنے کا خیال آیا ضروری تھا کہ حکومت پہلے ہی دن سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرتی ضروری نہیں کہ بلوچستان کا ہر شہری ہر فرد پہاڑوں پر جائے جمعیت علماء اسلام کے علاوہ کسی نے بلوچستان کے مسائل کو پارلیمنٹ میں نہیں اٹھایا ہم نے بلوچستان کی آواز کو اسمبلیوں میں بلند کی بلوچستان میں 4نہیں 40لاکھ ناراض بلوچ ہے اگر مری معاہدہ پر عمل نہیں ہوتا تو مسلم لیگ ن کے نواب ثناء اﷲ زہری سمیت 22ارکان اسمبلی بھی ناراض بلوچوں میں شامل ہوسکتے ہیں جبکہ اگر مری معاہدہ پر عمل درآمد ہوجاتا ہے تو پھر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت کئی ناراض بلوچوں کو کردار ادا کریں گے بلوچستان کا اصل مسئلہ وسائل پر اختیار کا ہے ڈھائی سال میں مذکرات کے نام پر حکومت کرنے والے اگر ڈھائی سال اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتے تو بلوچستان کا مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا یہاں پر تو وفاق کی جانب سے ملنے والے فنڈز بھی استعمال نہ ہوسکے ہیں اور واپس جاچکے ہیں جمعیت علماء اسلام اقتدار کی بندر باٹ میں میں شامل نہیں اور نہ ہی ہمیں اس سے کوئی سروکار ہے ہمیں پتہ ہے کہ سہولت کار کون ہیں ڈھائی سال مری معاہدہ پر عمل درآمد کرنے میں کون مددگار ثابت ہوا ہے21 ویں ترمیم میں سہولت کار کو مجرم قرار دیا گیا ہے بلوچستان میں اقتدار کی رسی کشی کے کھیل میں جمعیت کا کوئی رول نہیں اور نہ ہی اہم اس کا حصہ دار ہیں گوارر گاشغرروٹ کے حوالے سے صورت حال گرآلود نظر آتی ہے دوبارہ محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوگی بلوچستان سے جو بھی وعدے کئے گئے ہیں ان کو پورا نہیں کیا جاسکا ہے گاشغر روٹ پر وفاق نے یوٹرن لیا ہے جمعیت علماء اسلام ہمیشہ اقتدار میں حکمران جماعتوں کے ساتھ تعاون کیا لیکن آج تک ہمارا ورزیراعلیٰ نہیں آیا جو ہم بلوچستان کے مسائل کو حل کرتے اگر ہمیں بااختیار بنا کر ناراض بلوچوں کے ساتھ مذکرات کرنے کی ذمہ داری دی جائے تو ہم اپنا رول ضرور پلے کریں گے اور عملی اقدام کریں مسائل کا حل کبھی بندوق گولی جنگ وجدن میں ممکن نہیں مذکرات کی میز پر مسائل کو حل کرنا موجودہ وقت کی ضرورت ہے بلوچستان میں امن ڈاکٹر عبدالمالک کی وجہ سے نہیں بلکہ فورسز کی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں آگر آج ایف سی اور دیگر ادروں کو بلوچستان سے نکل دیا جائے تو بلوچستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا بلوچستان کے بلدیاتی اداروں کواختیارات نہ ملنے کے سوال پر حافظ حسین احمد نے کہا کہ جو حکومت خود بے اختیار ہو وہ کس کو اختیار دے سکتی ہیں کراچی اسلام آباد ودیگر شہروں میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہورہے ہیں بلکہ کورٹ کا ڈانڈا بول رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :

سیبی میں شائع ہونے والی مزید خبریں