بلدیاتی نمائندے احتجاج کریں یا نہ کریں انکے مسائل حل کرنا ہماری ذمہ داری ہے،عنایت اللہ

جمعرات 18 فروری 2016 16:36

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔18 فروری۔2016ء) سینئر صوبائی وزیر برائے بلدیات اور صوبائی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان نے کہا ہے کہ بلدیاتی نمائندے احتجاج کریں یا نہ کریں ان کے مسائل حل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ان کے دو طرح کی شکایات ہیں ، ایک آپریشنل دوم اصولی یا پالیسی ایشوز سے متعلق ہیں۔ آپریشنل ایشوز فوری طور پر حل چاہتے ہیں تاکہ یہ عوامی نمائندے عوام ی توقعات پر پورا اتر سکیں اور اپنی اپنی سطح پر امور کی انجام دہی آگے بڑھا سکیں ۔

جبکہ پالیسی ایشوز کے حوالے سے وزیر اعلیٰ اور کابینہ سطح پراتفاق رائے پیدا کریں گے اور ترامیم تجویز کریں گے۔ وہ جمعرات کے روز المرکزالاسلامی پشاور میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان ، نائب امیر ڈاکٹر محمد اقبال خلیل صوبائی سیکرٹری اطلاعات محمد اقبال اور جماعت اسلامی ضلع چارسدہ کے امیر مصباح اللہ سمیت دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

سینئر وزیر نے کہا کہ عوامی نمائندوں کے آپریشنل مسائل کے حل کے لئے ہفتہ وار بنیاد پر اجلاس منعقد ہوں گے ۔ ان کے مسائل کی چیک لسٹ تیار کی جائے گی ۔ ہر ضلع کی سطح پر ایک ہیلپ لائن قائم کیا جائے گا جس میں گریڈ 17کا افسر اور متعلقہ عملہ ہوگا اور ایک ماہ کے اندر اندر مسائل حل کئے جائیں گے۔ مختلف سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے عنایت اللہ خان نے کہا کہ عوامی نمائندوں کو بعض امور کے حوالے سے علم نہ ہونے کے باعث مشکلات ہیں حالانکہ تمام اضلاع میں بجٹ بنے ہیں اور فنڈز لوکیشن ہوچکی ہے۔

ضلعوں کو 42ارب روپے کے فنڈز جانے ہیں جن میں ساڑھے گیارہ ارب روپے ضلعوں کے تحت محکموں کے اخراجات جاریہ کے لئے ہیں۔ جبکہ باقی 30ارب میں بھی نصف فنڈز ضلعوں تحصیلوں کو جاری کئے جاچکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ضلعوں کو ان کے شیئرز سے زیادہ فنڈز ریلیز کئے گئے ہیں جن میں تحصیل کونسلوں کو ساڑھے چار ارب ، ضلع کونسلوں کو ساڑھے چار ارب روپے کے فنڈز شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ناظمین کی تنخواہوں ، دفاتر اخراجات و مراعات کے حوالے سے ورکنگ کی جارہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سینئر وزیر نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا واحد صوبہ ہے جس نے 18ویں ترمیم کے بعد سب سے پہلے کرپشن کے خاتمے کے لئے احتساب کمیشن کا ادارہ قائم کیا ۔ قوانین بنائے اوران قوانین کا سقم دور کرنے کے لئے ترامیم بھی بھی کیں۔ اب جو ترامیم لائی گئی ہیں ان پر کمیشن نے 8ماہ تک کام کیا ہے اور جب اسمبلی میں یہ ترامیم آئیں گی تو اسمبلی کا اجتماعی وزڈم بھی اس میں شامل ہوگا۔

وہ سابق ڈی جی نیب کے بیانات کو فالو کررہے ہیں۔ اگر ان ترامیم کے حوالے سے کوئی بات درست پائی گئی تو وہ اسمبلی میں اس حوالے سے ضرور بات کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ سابق ڈی جی احتساب نے جو الزامات لگائے ہیں وہ کہیں ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ سنی سنائی باتیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ احتساب کمیشن بااختیار ہے اگر کسی کے خلاف الزامات ثابت ہوں تو وہ انکوائری بھی کرسکتا ہے اور قوانین کے مطابق اقدامات اٹھا سکتا ہے۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں