اربوں روپے کی قیمتی اور اعلیٰ لکڑی جنگلات کے صوبائی محکموں کی نااہلی اور مخصوص مفادات کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہے‘کاشف اشفاق

پاکستان سافٹ ووڈ کی مجموعی کھپت کا 75 فیصد سے زائد درآمد کرتا ہے صوبائی محکموں کی نااہلی کے باعث اربوں روپے کا زرمبادلہ ضائع ہو رہا ہے فرنیچر انڈسٹری کیلئے ضروری سافٹ ووڈ کیلئے شجر کاری کے ذریعے درختوں کی تعداد میں اضافہ کی حکمت عملی اختیار کی جائے ‘چیف ایگزیکٹو پی ایف سی

جمعہ 15 جون 2018 14:39

اربوں روپے کی قیمتی اور اعلیٰ لکڑی جنگلات کے صوبائی محکموں کی نااہلی اور مخصوص مفادات کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہے‘کاشف اشفاق
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جون2018ء) پاکستان فرنیچر کونسل (پی ایف سی) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ شجر کاری کے ذریعے درختوں کی تعداد میں اضافہ کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ فرنیچر انڈسٹری کے لئے ضروری سافٹ ووڈ میسر آسکے اور اس کی امپورٹ پر خرچ ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے۔ جمعہ کو جاری بیان میں پی ایف سی کے چیف ایگزیکٹو میاں کاشف اشفاق نے کہا کہ پاکستان سافٹ ووڈ کی مجموعی کھپت کا 75 فیصد سے زائد درآمد کرتا ہے جو دروازے اور کھڑکیاں بنانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور صوبائی محکموں کی نااہلی اور بدعنوانی کے باعث اربوں روپے کا زرمبادلہ ضائع ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لکڑی کی صرف 25 فیصد ضرورت مقامی پیداوار سے پوری ہوتی ہے کیونکہ اربوں روپے کی قیمتی اور اعلیٰ لکڑی جنگلات کے صوبائی محکموں کی نااہلی اور مخصوص مفادات کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان سے لکڑی کی مصنوعات کی برآمدات صرف لکڑی کے فرنیچر، چند سٹیشنری آئٹمز (رجسٹرز، ڈائریوں، خطوط وغیرہ) اور شیشم کے ٹیبل اور کچن ویئر تک محدود ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہزاروں افراد چھوٹے پیمانے پر فرنیچر کی تیاری سے وابستہ ہیں، روایتی طور پر، گاؤں کے کارپینٹر ہی فرنیچر تیار کرتے تھے لیکن اب نجی شعبے نے گجرات، جھنگ، پشاور اور دیگر شہروں میں جدید فرنیچر فیکٹریاں قائم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فرنیچر سازی کے لئے تقریباً 82 فیصد شیشم کی لکڑی استعمال ہوتی ہے جبکہ اس کے علاوہ دیودار، پاپلر اور شہتوت کی لکڑی بھی استعمال کی جاتی ہے۔

فرنیچر ساز زیادہ تر خود ہی لکڑی کی کٹائی کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق فرنیچر کے لئے لکڑی کا استعمال 5.9 میٹر مکعب میٹر فی ہزار افراد ہے۔ میاں کاشف اشفاق نے کہا کہ مقامی سطح پر شجرکاری کو فروغ دینے کے لئے درخت نہ کاٹنے کی حوصلہ افزائی کیلئے حکومت کو نقد حوصلہ افزائی پروگرام شروع کرنا چاہئے جس نتیجے میں جنگلات کا تحفظ ممکن ہو سکے گا۔

میاں کاشف اشفاق نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں جنگلات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور علاقے میں تجارتی جنگلات کو فروغ دیکر دیہی علاقوں میں نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں بلکہ اس سے موجودہ جنگلات پر دباؤ بھی کم ہو گا۔ جنگلات کے متبادل توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے اور عوام کو جنگلات کی اہمیت کے بارے میں آگاہی کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ درآمدی لکڑی، چاہے وہ امریکہ اور کینیڈا سے منگوائی جائے،امپورٹ ڈیوٹی کے باوجود 50 سے 100 روپے تک سستی ہے، انہوں نے کہا کہ غیر ملکی لکڑی اس لئے سستی ہے کیونکہ وہ منظم انداز میں درخت اگاتے اور کاٹتے ہیں اور اس سے کبھی جنگلات کے کٹائو کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی، مہارت اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں لکڑی کے آرے اس قدرتی خزانے کو بڑے پیمانے پر ضائع کر رہے ہیں۔

پی ایف سی کے چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی کو روکنے کیلئے سخت اقدامات اور قانونی کارروائی اب موثر نہیں رہے اس لئے اس کی روک تھام کیلئے از سر نو پالیسی مرتب کرنا ہوگی اور اپنے ایکو سسٹم کو تباہی سے بچانے اور اپنے قدرتی وسائل کی حفاظت کیلئے جدید خطوط پر اقدامات کرنا ہونگے۔ سیکرٹری پی ایف سی عاقل سردار نے کہا کہ اگر فرنیچر کے شعبے کو انڈسٹری کا درجہ دے دیا جائے، مقامی ہاتھ سے بنے فرنیچر کو پروموٹ کیا جائے اور کارکنوں کو جدید خطوط پر تربیت دی جائے تو یہ شعبہ بڑی مقدار میں زرمبادلہ کما سکتا ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں