متحدہ عرب امارات نے31پاکستانیوں کی 60ارب مالیت کی 55جائیدادوں کی تصدیق کردی ‘پاکستانیوں نے دبئی رئیل اسٹیٹ میں بھاری سرمایہ کاری کررکھی ہے۔حکام

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 16 فروری 2018 11:23

متحدہ عرب امارات نے31پاکستانیوں کی 60ارب مالیت کی 55جائیدادوں کی تصدیق کردی ‘پاکستانیوں نے دبئی   رئیل اسٹیٹ میں بھاری سرمایہ کاری کررکھی ہے۔حکام
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمد ندیم سے۔16 فروری۔2018ء) متحدہ عرب امارات کی حکومت نے31پاکستانیوں کی 60ارب مالیت کی 55جائیدادوں کی تصدیق کردی ہے۔ عرب امارات ٹیکس حکام نے 53پاکستانی سرمایہ کاروں کی تفصیلات فراہم کی ہیں جن میں سے صرف 5نے اپنے اثاثے ایف بی آر کو ظاہر کیے ہیں۔تفصیلات کے مطابق،متحدہ عرب امارات حکومت کے مطابق پاکستانی شہریوں نے دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں بھاری سرمایہ کاری کررکھی ہے۔

ایف آئی اے کے معاشی جرائم ونگ نے متحدہ عرب امارات کی وزارت خزانہ سے 16نومبر،2017کو درخواست کی تھی کہ وہ یواے ای میں جائیدادیں اور اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں کی تفصیلات فراہم کریں جس کے جواب میں متحدہ عرب امارات کے ٹیکس حکام نے 53پاکستانی شہریوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں جن میں متعدد رئیل اسٹیٹ سے وابستہ سرمایہ کارشامل ہیں تفصیلات میں 31 پاسپورٹس کی نقول بھی فراہم کی گئی ہیں جن کے بارے میں 22جنوری،2018 اور 28جنوری ،2018کو لکھے گئے خطوط میں تفصیل فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تھی-ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ان 31پاکستانی شہریوں کی تقریبا60ارب روپے مالیت کے 55اثاثے دبئی کے قلب میں موجود ہیں۔

(جاری ہے)

ایک اندازے کے مطابق عربامارات میں7ہزار پاکستانیوں کے تقریباً11سو ارب روپے کے اثاثہ جات موجود ہیںجو کہ گزشتہ 15برسوں میں دبئی کے قلب میں بنائے گئے۔ ان افراد نے یہ اثاثے اپنے سالانہ ٹیکس ریٹرنز میں بھی ظاہر نہیں کیے۔ پاکستان نے ابتدائی طور پر 100پاکستانیوں کی فہرست متحدہ عرب امارت کو بجھوائی تھی جس کی تفصیلات ایف بی آر کے ڈائریکٹر، معاشی جرائم ونگ ، ایف آئی اے ہیڈکوارٹر کو موصول ہوچکی ہیں جنہیں مزیدکاروائی کے لیے وزارت خزانہ کے ای او آئی یونٹ بھجوادیا گیا ہے۔

متحدہ عرب امارا ت کے ٹیکس حکام نے 22جنوری اور 28جنوری کو لکھے گئے دو خطوط کے ذریعے 55جائیدادوں کی منتقلی کی تفصیلات فراہم کردی ہیں ، ان میں سے 32پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹس کی نقول بھی فراہم کی گئی ہیںان 32میں سے 31کے شناختی کارڈز موجود ہیں ، جبکہ 31میں سے 29ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ایف بی آر ریکارڈ کے مطابق، صرف 5افراد نے متحدہ عرب امارات کے اثاثے ظاہر کیے ہیں۔

ایف بی آر نے وزارت خارجہ امور سے درخواست کی ہے کہ متبادل طریقہ کار کے طور پر ، اس مسئلے سے متعلق متحدہ عرب امارات کے سفیر سے ان کی ملاقات کا بندوبست کیا جائے۔دفتر خارجہ نے یہ معاملہ متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے کے سامنے بھی اٹھایا ہے اور متعدد خطوط لکھے ہیں-پاکستان اور متحدہ عرب امارات نے ڈبل ٹیکس سے بچنے کے کنونشن پر 1993میں دستخط کیے تھے۔

اس کنونشن کا آرٹیکل 27معلومات کے تبادلے سے متعلق ہے۔متحدہ عرب امارات کے حکام نے 2012میں اس کنونشن کے بہت سے آرٹیکلز میں ترمیم کی درخواست کی تھی ، جس میں آرٹیکل 27میں ترمیم کی تجویز بھی شامل تھی تاکہ اسے او ای سی ڈی ماڈل 2010کے مطابق کردیا جائے۔اس ضمن میں وفاقی کابینہ کی منظوری بھی طلب کی گئی تھی تاکہ کنونشن میں ترمیم سے متعلق دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا آغاز کیا جاسکے اور ضروری منظوری کے بعد یہ معاملہ متحدہ عرب امارات کے حکام تک سفارتی ذرائع سے پہنچایا جاسکے۔

یہ درخواست بھی کی گئی تھی کہ مذاکرات کے لیے باقاعدہ تاریخ اور جگہ کا بھی تعین کیا جائے ، جس سے پاکستان کو بھی جلد سے جلد آگاہ کیا جائے لیکن متحدہ عرب امارات حکام نے تاحال اس کا جواب نہیں دیا ہے۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معلومات کا تبادلہ مذکورہ معاہدے کے آرٹیکل 27کے تحت کیا جاتا ہے۔اس آرٹیکل کے تحت کسی بھی فریق ریاست کو موصول ہونے والی معلومات خفیہ رکھی جائیں گی ، جس کی نوعیت وہی ہوگی جو کہ ریاست کے اندرونی قوانین کے تحت حاصل کردہ معلومات کی ہوتی ہے۔

تاہم اگر معلومات فراہم کرنے والی ریاست نے ہی اسے خفیہ کہا ہے تو یہ معلومات صرف ان اداروں کے اہلکاروں کو فراہم کی جائے گی ،جو کہ اس سے متعلق ہوں گے ان میں عدالتیں اور انتظامی ادارے شامل ہیں۔ایسے افراد یا حکام اس معلومات کو صرف مذکورہ مقاصد کے لیے ہی استعمال کرسکیں گے تاہم یہ معلومات عوامی عدالتی کارروائیوں اور عدالتی فیصلوں میں بھی سامنے لائی جاسکتی ہیں۔

اسی طرح، یہ معلومات کسی دوسری ایجنسی یا محکمے یا دیگر کسی مقصد کے لیے جس کا آرٹیکل میں ذکر نہیں یہ معلومات فراہم نہیں کی جائیں گی۔اسی قانون کے تحت برطانوی حکومت نے بھی کالے دھن کے ذریعے اثاثے بنانے والوں کے خلاف کاروائی کے لیے برطانوی پارلیمان سے خصوصی اجازت لی ہے تاہم ابھی تک برطانیہ میں اس پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی اطلاع سامنے نہیں آسکی-

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں