آشیانہ ٹو ہائوسنگ سکیم معاملہ، فواد حسن فواد(کل )نیب لاہور آفس میں پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے

فوادحسن فواد سے نیب کی جانب سے دیئے گئے انکوائری نوٹس سے پہلے ہی وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر پراجیکٹ کی بڈنگ پر اینٹی کرپشن کے ذریعے انکوائری کے احکامات دیئے گئے اوراینٹی کرپشن کی رپورٹ پر ہی منسوخی ہوئی تھی،ذرائع

جمعرات 15 فروری 2018 22:20

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 فروری2018ء) وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد آشیانہ ٹو ہائوسنگ سکیم برقی روڈ کے معاملے میں نیب کی طرف سے ملنے والے نوٹس پر (کل) جمعہ کو لاہور میں نیب کے دفتر میں پیش ہوں گے اور اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے، اس کیس کے حوالے سے جو حقائق اب تک سامنے آئے ان کے مطابق فوادحسن فواد سے نیب کی جانب سے دیئے گئے انکوائری نوٹس سے پہلے ہی وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر پراجیکٹ کی بڈنگ پر اینٹی کرپشن کے ذریعے انکوائری کے احکامات دیئے گئے تھے،اینٹی کرپشن کی رپورٹ پر ہی منسوخی ہوئی تھی، آشیانہ سکیم میں 13کمپنیوں نے بولی میں حصہ لیا جن میں سے 3کی بولیاں کھولی گئیں، اس معاملے پر پراجیکٹ ڈائریکٹر نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق آشیانہ ٹو ہائوسنگ سکیم برکی روڈ لاور کے کنٹریکٹ اور بڈنگ کے حوالے سے نیب نے وزیراعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد کو جو انکوائری نوٹس جاری کیا ہے اس پراجیکٹ کی بڈنگ پر وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر پہلے ہی اینٹی کرپشن کے ذریعے انکوائری کے احکامات دیئے گئے اور اینٹی کرپشن کی رپورٹ پر ہی منسوخی ہوئی تھی، ٹینڈرنگ کیلئے ابتدائی طور پر 30نومبر 2012کا وقت طے ہوا تھا پھر ٹینڈر کمیٹی ممبرز کی مداخلت پر اسی دن اس میں چند گھنٹوں کی توسیع کی گئی، پہلے جو سی ڈی آر بھرا گیا وہ بڈدستاویزات کے مطابق نہیں تھا جس میں صرف شیڈولڈ بینک ہونا واضح تھا، تین دن بعد یعنی 3دسمبر2012کو تین پارٹیوں سے نئی ٹینڈر بھرنے کا کہا گیا، پیشکش کے باوجود 13پری کوالیفائیڈبڈرز میں سے بیشتر پہلی تاریخ پر شامل نہ ہو سکے تھے۔

(جاری ہے)

بڈ دستاویزات جن کے ٹائٹل پیج پر ممبرز کمیٹی نے دستخط کئے وہ پراجیکٹ کنسلٹنٹ کو فوری طور پر دینے کے بجائے پی ایل ڈی سی کے آفس میں غیر قانونی طور پر ایک دن کیلئے رکھ لئے گئے۔ آشیانہ سکیم کے ٹینڈر اور کنٹریکٹ کے حوالے سے متذکرہ سنجیدہ نوعیت کی بے قاعدگیاں سامنے آئیں، ٹینڈر کے معاملے پر پراجیکٹ ڈائریکٹر نے کچھ غلطیاں کی ہیں جس پر وزیراعلیٰ نے 48گھنٹوں میں انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، اس کیلئے چار رکنی کمیٹی بنائی گئی جس کے کنوینئر سیکرٹری خزانہ کرامت اللہ چوہدری تھے جبکہ دیگر ارکان میں خیام قیصر چیف انجینئرز ہائی ویز، وقار اے خان چارٹرڈ اکائونٹنٹ اور ڈاکٹر محمد عابد بودلہ ممبر پی اینڈ ڈی بورڈ شامل تھے، انکوائری کمیٹی کو بڈنگ کی شکایات کی جانچ پڑتال کر کے رپورٹ دینے کا کہا گیا۔

کمیٹی کو موصولہ تفصیلات کے مطابق آشیانہ سکیم کیلئے کل 13بڈرز کی بولیاں شامل تھیں، جن میں سے 3کی بولیاں کھولی گئیں، پراجیکٹ ڈائریکٹر نے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور ایک کمپنی کی پری کوالیفکیشن کے پیپر ایک افسر ساتھ لے گئے، یہ معاملہ چیف منسٹر معائنہ کمیشن ٹیم کے نوٹس میں بھی لایا گیا۔ جب رپورٹ میں بے قاعدگیوں کے اثرات نمایاں نظر آئے تب وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ 3رکنی کمیٹی بنائے گی جس کا سربراہ ڈائریکٹر رینک سے کم نہ ہو۔

کمیٹی کو ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹ دینے کے تمام عمل کی انکوائری کرنے کی ہدایت کی گئی اور مزید کارروائی رپورٹ آنے کے بعد کرنے کا کہا گیا، اینٹی کرپشن کمیٹی کی رپورٹ میں بے قاعدگی واضح ہونے پر ٹینڈر اور کنٹریکٹ منسوخ کیا گیا۔ ٹینڈریا کنٹریکٹ دینے یا شکایات کے عمل کی جانچ پڑتال میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکرٹری کا کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ شکایات آنے پر معاملہ وزیراعلیٰ کے نوٹس میں لایا گیا جبکہ خود وزیراعلیٰ نے بھی اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا اور یکے بعد دیگر انکوائریاں کرائیں اور بے قاعدگیاں ثابت ہونے پر کنٹریکٹ اور بڈنگ منسوخ ہوئی۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں