حفاظتی اقدامات کے ذریعے فصلات کے ضرر رساںکیڑوں کے حملے میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے،زرعی ماہرین

اتوار 1 جنوری 2017 12:40

لاہور۔یکم جنوری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 جنوری2017ء)زرعی ماہرین نے کہاہے کہ کپاس، د ھا ن، کماد، مکئی اور جوار ہمارے ملک کی اہم نقدآور فصلات میں شامل ہیں اگر شروع ہی سے کیڑوں کا تدارک کیا جائے تو اگلی فصلات کو کافی حد تک کیڑوں کے حملے سے بچایا جا سکتا ہے ۔اگلی فصلات پر کیڑوںکے حملے کو کم کرنے کیلئے کپاس کی چھڑیوںکی کٹا ئی اوردھان ودیگر فصلات کے مڈھو ں کی تلفی ا ہم کر دار ادا کرتی ہے۔

کپا س ، کماد،دھان،مکئی اور جوار کی سنڈیاں سردیوں کا موسم چھڑ یوں اور مڈھوں میں سرمائی نیندسوکر گزارتی ہیں جن کو تلف کر کے اگلی فصل کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے ۔مندرجہ ذیل گزارشارت پر عمل پیرا ہو کرفصلات کے ضرر رساںکیڑوں کے حملے میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

چھڑیوں کی کٹا ئی کے وقت فصل کو زمین کی سطح کے قریب سے کا ٹا جائے اس سے زمین میں وتر جلدی آ جاتا ہے اور اگلی فصل کی بوائی اور زمین کی تیاری میں آسانی ہو جا تی ہے ۔

کٹا ئی کے بعد کھیتوں میں بھیڑ بکریاں چرانے کے لیے چھوڑ دی جا ئیںتاکہ بچے کچھے مڈھ، ٹینڈے، کھوکھڑیاں،پتے اور چھڑیوںمیں موجودسنڈیاں اورپیوپے تلف ہو جائیں اسطرح کپاس کی فصل کے ٹینڈوں میں موجود دو جڑے ہو ئے بیجوں میں چھپی گلابی سنڈی تلف ہو جا تی ہے ۔ فصلات کے مڈھوں کی تلفی بذریعہ روٹاویٹر کر نے سے نہ صر ف زمین اچھی تیار ہو جا تی ہے بلکہ مڈھوں میں موجود سنڈیاں اور کوئے بھی تلف ہو جا تے ہے بچی کچھی سنڈیاںاورکوئے پرندوں کی خوراک بن جاتے ہیں اور اگلی فصل ان کے حملے سے قدرے محفوظ ر ہتی ہے ۔

کپاس کی چھڑیوں کے ڈھیرفروری کے مہینے تک جلا لیے جائیں اور گرے ہوئے سو کھے ٹینڈے اور کھوکھڑیاں اکٹھا کر کے جلا دیے جائیں یاگہرے دبا دیئے جائیں ۔یہ عمل جننگ فیکٹریوں میں بھی لازمی دہرایا جائے تاکہ گلابی سنڈی کاخاتمہ ہوجا ئے اور لگاتار لائٹ ٹریپ لگا کرپروانے تلف کرتے رہیں۔اگر کپاس والے کھیت میں گندم کاشت کی گئی ہواور کھیت میں اگربچے کچھے ٹینڈے، کھوکھڑیاں موجود ہوں تو ا ن کوکھول کر د یکھا جائے اگر گلابی سنڈی ڈبل سیڈمیں ملے تو پھر 1.5تا 2لیٹرکلور پائری فاس پانی کے ساتھ فی ایکڑفلڈ کر یں تاکہ سنڈیاں،ڈسکی کاٹن بگ ،ریڈکاٹن بگ اوردیمک کا خاتمہ ہو جائے اس طرح نہ صرف گندم کی فصل دیمک کے حملے سے محفوظ رہے گی بلکہ آنے والی کپاس کی فصل پر بھی کیڑوں کا حملہ کم ہوگا۔

اس طرح فصل کے بقایا جات میں چھپی سنڈیاں اور کوئے تلف ہوجائیں گے۔ گڑواں کے حملہ سے متاثرہ شاخوں کو کھینچ کر نکالا جائے اور ان کو بھی جلا دیا جائے، حملہ شدید ہو تو کماد کی مونڈھی فصل نہ لی جائے۔ جولائی تا ستمبر کے مہینے میں اگر کماد کی فصل پر گرداس پور گڑواں کا حملہ ہو تو متاثرہ پودوں کا اوپر والا حملہ شدہ حصہ کاٹ کر تلف کرنے سے گڑواں کے حملے میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔

اگر پودوں کوکو رے سے محفوظ رکھنے کیلئے مناسب حکمت عملی نہ اپنائی جائے تو آم کے چھوٹے پودوں اور نرسری کو زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔ نرسری میں آم کے پودوں کو شیشم وغیرہ کی شاخوں کے ساتھ اس طرح ڈھانپا جائے کہ پودوں پر دن کے وقت سورج کی روشنی بھی پڑتی رہے۔جب رات کو کورا پڑنے لگے تو باغات میں دھواں کریں تاکہ کورے کا اثر کم سے کم ہو ۔

کورے والی راتوں سے قبل آبپاشی کردینے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔یوں ان پودوں کو محفوظ رکھنے میں مدد ملتی ہے۔آم کی نرسری کو کورے سے بچانے کا ایک اور موثر طریقہ اسکو پلاسٹک سے ڈھانپ دینا بھی ہے۔ باغ میں جب آم کا پودا پانچ فٹ سے بڑا ہو جائے تو اسے 5%چونے کا سپرے کریں۔اس طرح چونے کی ایک پتلی تہہ پتوں اور شاخوں پر بن جاتی ہے۔

جوکہ کورے کے اثرات کو کم کرتی ہے۔ بڑے پودوں کے تنوں پر سفیدی کریں اور چھوٹے پودوں کے تنوں پر پرالی وغیرہ باندھ دیں ۔مزید براں انہیں پٹ سن کے ٹکڑوں سے لپیٹ کر بھی کورے وسردی سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔پودوں کی غذائی ضروریات کا خاص خیال رکھیں۔ تاکہ پودے تندرست و توانا رہیں۔کمزور پودوں پر کورے کے اثرات بھی زیادہ پڑتے ہیں۔کورے سے متاثرہ پودوں کی کانٹ چھانٹ کرنے کے بعد ان پودوں پر کسی پھپھوندی کش زہر مثلاًٹاپسن ایم وغیرہ کا سپرے کریں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں