برطانیہ سے آیا ہوا خاندان ہائی وولٹیج تاروں سے چھو کر جھلسنے والے بچے کو علاج کی ناکافی سہولیات کے باعث ائیر ایمبولینس کے ذریعے بیرون ملک لے گیا،جناح اور میو ہسپتال کے ڈاکٹروں کی غفلت اور نا تجربہ کاری میں دی جانیوالی طبی امداد کے نتیجے میں بچے کی انگلیاں ضائع ہو گئیں ،اوور سیز والدین کا وزیر اعلیٰ سے برن یونٹس کو فعال ،جدید مشینری اور برن انجری کے سپیشلائز ڈاکٹروں کی تعیناتی کا مطالبہ

اتوار 27 اپریل 2014 18:18

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27اپریل۔2014ء) برطانیہ سے آیا ہوا خاندان لیسکو کی ہائی وولٹیج تاروں سے چھو کر جھلسنے والے نو سالہ بچے کو سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی ناکافی سہولیات اوربرن انجری کے سپیشلائز ڈاکٹر زکی عدم دستیابی کے باعث ائیر ایمبولینس کے ذریعے علاج کی غرض سے برطانیہ لے گیا ،جناح اور میو ہسپتال کے ڈاکٹروں کی غفلت اور نا تجربہ کاری میں دی جانیوالی طبی امداد کے نتیجے میں بچے کی انگلیاں ضائع ہو گئیں ،اوور سیز والدین نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے سرکاری ہسپتالوں میں برن یونٹس کو فعال ،جدید مشینری اور جھلسے ہوئے مریضوں کے علاج کیلئے سپیشلائز ڈاکٹروں کی تعیناتی کا مطالبہ کر دیا ۔

عرصہ بیس سال سے برطانیہ میں مقیم پاکستانی شکیل طارق نے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کے نام اپنے کھلے خط میں حادثے سے متعلق بتایا کہ وہ اپنے والد کے انتقال اپنے چار بچوں اور بیوی کے ہمراہ برطانیہ سے مکہ کالونی گلبرگ آیا ہوا ۔

(جاری ہے)

رواں ماہ کی 17تاریخ کو ان کا نو سالہ بیٹا دانیال پہلی منزل کی ٹیرس پر کھیلتے ہوئے اپنا تواز بر قرار نہ رکھ سکا اورگرنے سے بچنے کیلئے پہلی منزل کے قریب سے گزرتی ہوئی لیسکو کی ہائی وولٹیج 11کے وی کی تاروں جنہیں پلاسٹک بھی لپیٹ رکھا تھا کو پکڑنا پڑا جس پر ایک دھماکہ ہوا اور کرنٹ لگنے سے ان کا بیٹا دیوار میں جا لگا جس پر دانیال کو فوری نزدیکی نجی ہسپتال لیجایا گیا تاہم برن یونٹ نہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی طبی امداد دے کر اسے میو ہسپتال بھجوایا گیا ۔

انہوں نے بتایا کہ مریض کی تشویشناک حالت کے باوجود میو ہسپتال برن یونٹ کے عملے نے بتایا کہ ہمارے پاس کم از کم تین سے چار گھنٹے مریض کے لئے جگہ دستیاب نہیں جس پر مریض کی حالت کو دیکھتے ہوئے ایک او رنجی ہسپتال بھجوایا دیا گیا ۔ میو ہسپتال کے عملے کے مشورے پر نجی ہسپتال پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس تو برن یونٹ ہی نہیں اسے میو یا جناح لے لیجائیں جس پر ہم پھر بچے کو لے کر جناح ہسپتال چلے گئے ۔

جہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ وہاں برن یونٹ اور مشینری تو ہے لیکن غیر فعال ہے جبکہ ہسپتال کے ڈاکٹرز نے مریض کو ابتدائی طور پر چیک کرنے کے بعد بتایا کہ وہ برن انجری کے سپیشلائز ڈاکٹر نہیں بلکہ عمومی علاج کر سکتے ہیں اور ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ آپ کا تعلق برطانیہ سے ہے لہٰذا بچے کو بیرون ملک لیجانا ہی بہتر ہے ۔ شکیل نے بتایا کہ اس نے برطانوی ہائی کمیشن رابطہ کر کے صورتحال سے آگاہ کیا اور ائیر ایمبولینس کا انتظام کر کے بچے کو برطانیہ منتقل کر دیاگیا جہاں ان کا تاحال انتہائی نگہداشت میں زیر علاج ہے ۔

شکیل نے بتایا کہ برطانوی ڈاکٹر ز نے بچے کا معائنہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں بچے کو جس طرح طبی امداد دی گئی ہے اس سے اسکی حالت زیادہ بگڑ گئی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق تاروں کو چھونے کی وجہ سے بچے کے اکڑنے والے ہاتھ کو کھولنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی جسکی وجہ سے اسکے ہاتھ کی انگلیاں کاٹنا پڑیں ۔ شکیل نے گھروں کے قریب سے لیسکو کی گزرتی ہوئی ہائی وولٹیج تاروں اور سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی ناکافی سہولیات پر انتہائی دکھ کا اظہار کرتے اپیل کی ہے کہ نہ صرف اس سلسلہ میں وفاقی حکومت واپڈا کو ضروری حفاظتی انتظامات کی ہدایات کرے بلکہ صوبائی حکومت علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی پر بھی توجہ دے ۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں