بلدیاتی حلقہ بندیوں پر عدالتی فیصلے کو نا صرف تسلیم بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کرینگے‘ رانا ثنا اللہ خان،نومبر کی بجائے جون میں ہی الیکشن کرانا چاہتے ہیں،الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں شروع کیں تو انتخابات 2015ء میں ہوتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دیتے،وزیراعظم نے الطاف حسین کی ذہنی صحت بارے میرے ریمارکس پر کوئی سرزنش نہیں کی ‘ وزیر قانون وبلدیات کی میڈیا سے گفتگو

جمعرات 20 مارچ 2014 21:37

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20مارچ۔2014ء) صوبائی وزیر قانون و بلدیات رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں اگر اسسٹنٹ کمشنروں اور پٹواریوں سے ہی کرانی ہیں تو ہماری حلقہ بندیاں ہی قبول کر لیں ،کیونکہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا عمل شروع کیا تو شاید انتخابات 2014ء میں تو درکنار 2015ء میں بھی ہوتے دکھائی نہیں دیتے،شیخ رشید سے میرے اچھے مراسم ہیں کیونکہ وہ اعلیٰ درجے کے سیاسی کارکن ہیں،12اکتوبر 1999ء کے بعد انہوں نے غلطیاں کیں اور مصلحت کا شکار ہو کر پرویز مشرف کے کہنے پر مسلم لیگ (ق) کا ساتھ دیا۔

پنجاب اسمبلی احاطہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ بلدیاتی حلقہ بندیوں پر عدالتی فیصلے کو نا صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کریں گے مگر صوبائی حکومت نومبر کی بجائے جون میں ہی الیکشن کرانا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہیں ۔ مردم شماری 1998اور ووٹر لسٹ 2011ء کی ہے ۔

اگر الیکشن کمیشن نے اسسٹنٹ کمشنروں اور پٹوایروں سے ہی حلقہ بندیاں کرانی ہیں تو پھر ہمار ی حلقہ ندیوں کو ہی قبول کرلیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے الطاف حسین کی ذہنی صحت کے بارے میں میرے ریمارکس پر کوئی سرزنش نہیں کی حالانکہ ایم کیو ایم کے قائد کی ذہنی صحت کے بارے میں فوج مجھ سے زیادہ بہتر جانتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شیخ رشید سے میرے اچھے مراسم ہیں کیونکہ وہ اعلیٰ درجے کی سیاسی کارکن ہیں۔

12اکتوبر 1999ء کے بعد انہوں نے غلطیاں کیں اور مصلحت کا شکار ہو کر پرویز مشرف کے کہنے پر مسلم لیگ (ق) کا ساتھ دیا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور آر پی اوز ،ڈی پی اوز کی تعیناتیاں حساس اداروں کی کلیئرنس پر کی جاتی ہیں اس لئے اپوزیشن کا میرٹ کے برعکس تعیناتی کا الزام بے بنیاد ہے۔رانا ثناء اللہ خان نے لاپتہ افراد کے کیس سے متعلق سوال پر کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے جب دہشتگردوں کو پکڑنے اور تفتیش کرنے کا کہتے ہیں تو ان کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ اختیارات اور سہولیات نہیں ہیں۔

اس سلسلہ میں تحفظ پاکستان آرڈیننس میں مذکورہ اداروں کواختیارات دینے کی کوشش کی گئی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف قوانین میں بنیادی تبدیلیاں وقت کی ضرورت ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں