چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے طالبان سے مذاکرات پر بیس نکاتی سوال نامہ پیش کر دیا ،پاکستان کا آئین ریاست کے باغیوں سے مذاکرات کی اجازت نہیں دیتا اس کے باوجود دہشتگردوں سے مذاکرات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ ،کیا حکومت مذاکرات کے دوران طالبان سے پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قتل کا قصاص اور حساب مانگے گی؟ ‘ صاحبزادہ حامد رضا

بدھ 19 مارچ 2014 21:02

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19مارچ۔2014ء) چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے طالبان سے مذاکرات پر حکومت سے بیس سوالوں کے جواب مانگ لیے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیس نکاتی سوال نامہ میں حکومت سے پوچھا ہے کہ پاکستان کا آئین ریاست کے باغیوں سے مذاکرات کی اجازت نہیں دیتا اس کے باوجود دہشت گردوں سے مذاکرات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ کیا حکومت مذاکرات کے دوران طالبان سے پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قتل کا قصاص اور حساب مانگے گی؟ کیا حکومت کے لیے خطرناک قیدیوں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی، طالبان کی من پسند شریعت کے نفاذ اور آئین وقانون کو پس پشت ڈالنے جیسے طالبان کے مطالبات کو تسلیم کرنا ممکن ہے؟ کیا طالبان سے مذاکراتی عمل کے دوران کوئی ضمانت موجود ہے؟ اگر ہے تو وہ کون ہے؟ اگر طالبان کسی معاہدے کو توڑیں گے تو کیا طالبان کی نامزد کمیٹی اس کی ذمہ داری قبول کرے گی؟ کیا طالبان سے مذاکرات سے پہلے پچاس ہزار سے زائد شہداء کے لواحقین کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟ کیا ریاست کے باغیوں سے مذاکرات کر کے انہیں اہمیت دینے سے مزید بغاوتوں کا دروازہ نہیں کھلے گا؟ کیا دہشت گردوں سے مذاکرات سے پچاس ہزار سے زائد شہداء کے ورثاء کے زخم تازہ نہیں کیے جا رہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے معاملے میں دہشت گردی کا شکار ملک کے دو بڑے مکاتب فکر کو اعتماد میں نہیں لیا گیا جس سے اہلسنّت اور اہل تشیع میں ریاستی ناانصافی کا احساس خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے؟ کیا دہشت گردی کی سینکڑوں کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں سے مذاکرات شریعت اور آئین کے منافی نہیں ہیں؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ طالبان کے چند گروپوں سے مذاکرات کامیاب بھی ہو گئے تو باقی بے شمار گروپ دہشت گردی جاری نہیں رکھیں گے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ طالبان مذاکرات کے ڈرامے کے ذریعے نئے محفوظ ٹھکانوں کی تعمیر، بارودی ذخائر کی محفوظ جگہوں پر منتقلی اور نئی صف بندی کے لیے وقت حاصل کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

کیا فوجیوں کے گلے کاٹنے والوں سے مذاکرات کر کے پاک فوج کے جوانوں اور سپاہیوں کو بددلی کا شکار نہیں کیا جا رہا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ طالبان کے امریکہ اور بھارت کے ساتھ روابط کھلی حقیقت ہیں؟ اس کے باوجود ملک کے غداروں سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ طالبان آئین کو کفریہ دستاویز، پاک فوج کو واجب القتل اور پاکستانی ریاست کے پورے انتظامی و عدالتی ڈھانچے کو غیرشرعی قرار دے چکے ہیں اس کے باوجود ایسے باغیوں سے مذاکرات کا کیا جواز ہے؟ اگر حکومت نے ہزاروں بے گناہوں کے اعلانیہ قاتلوں سے مذاکرات ہی کرنے ہیں تو دوسرے مجرموں اور قاتلوں کو جیلوں میں قید رکھنے کا کیا جوواز ہے؟ اگر دہشت گرد اسی طرح مذاکرات کے نام پر اپنے غیرآئینی و غیرشرعی مطالبات منواتے رہے تو آئین، قانون اور عدلیہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ حکومت قوم کو دکھائے کہ نام نہاد مذاکراتی عمل کا ٹائم فریم کیا ہے؟ کیا مذاکرات کے نام پر دہشت گردوں کو دی جانے والی تمام رعایتوں کی تفصیلات قوم کے سامنے واضح نہیں ہونی چاہیے؟ دہشت گردوں سے مذاکرات کا دم بھرنے والے حکمران اور دوسرے راہنما اب تک شہداء کے ورثاء کی تسلی اور تشفی کے لیے ان کے پاس کیوں نہیں گئے؟ مذاکراتی عمل کے لیے صرف دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کی رائے کو ہی کیوں اہم سمجھا گیا ہے؟۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں