ملک میں دہشت گردی کی بڑی وجہ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں امریکی مداخلت ہے ‘ سید منور حسن ،حکومت نے قوم کے اجتماعی مطالبے کے پیش نظر مذاکرات کا فیصلہ کرکے جس دانش مندی اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے وہ خوش آئند ہے،اس سے پہلے کی بیرونی قوتیں مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہوں حکومت جلد از جلد اس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ‘ امیر جماعت اسلامی

جمعہ 14 مارچ 2014 21:01

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14مارچ۔2014ء) امیر جماعت اسلامی سید منورحسن نے کہا ہے کہ حکومت نے قوم کے اجتماعی مطالبے کے پیش نظر مذاکرات کا فیصلہ کرکے جس دانش مندی اور جرأت کا مظاہرہ کیا ہے وہ خوش آئند ہے، امریکی و سیکولر لابی کے آلہ کارمذاکرات کی میز کو الٹنے کیلئے دن رات کوشاں ہیں ،حکومت کو نہ صرف ان پر نظر رکھنا ہوگی بلکہ ایسے لوگوں سے اپنی صفوں کو پاک کرنا ہوگا،اس سے پہلے کہ بیرونی قوتوں کے ایجنٹ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہوں حکومت جلد از جلد اس معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ،بیوروکریٹس سیاسی معاملات کوسیاسی قیادت کی طرح آگے بڑھانے کے عادی نہیں ہوتے ،اس لئے وزیر اعظم کو مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت پر مسلسل نظر رکھنی چاہئے ، مذاکرات مخالف قوتوں کے پیش نظر ملک و قوم یا امت کا مفاد نہیں بلکہ امریکی ایجنڈے کی تکمیل ہے، بہتر تھا کہ طالبان بھی اپنی کمیٹی بناتے لیکن اب اگر انہوں نے سابقہ کمیٹی کو ہی بحال رکھا اور مذاکرات کا اختیار دیاتو طالبان کمیٹی کو بھی طالبان کی ضروریات اور مطالبات کو مدنظر رکھنا چاہئے ،اور ان کی شوری کا نقطہ نظر سن کر حکومت کو اس سے آگاہ کرنا چاہئے ،مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے دونوں طرف سے باہمی اعتماد کی فضا قائم رہنی چاہئے اور امریکہ سمیت کسی بھی بیرونی قوت کی مذاکرات میں مداخلت کو برداشت نہ کیا جائے ،عالمی استعمار کے دباؤ میں آکر عرب ممالک کی طرف سے عوام کی خدمت کا شاندار ریکارڈ رکھنے اور جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے والی اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینا قابل مذمت ہے،مغرب اسلام دشمنی میں تمام اخلاقی و انسانی حدود کو پامال کرچکا ہے ،اسلام کو دلائل کی دنیا میں شکست دینے میں ناکامی پر اب اس نے اسلامی تحریکوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھا دیا ہے،تھر میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں پر وزیراعلیٰ کو کان پکڑ کر مستعفی ہونے کا اعلان کرنا اور قوم سے معافی مانگنا چاہئے تھی مگر جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں کسی بہتری کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے ،حکمرانوں کا رویہ چوری اور پھر سینہ زوری والا بن چکا ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامع مسجد منصورہ میں جمعہ کے بہت بڑے اجتماع سے خطا ب کرتے ہوئے کیا۔سید منورحسن نے حکومت کی جاری کردہ قومی سلامتی پالیسی پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے شہری حقوق کو پامال کرنے کا لائسنس قرار دیا اور کہا کہ سلامتی پالیسی کے نام پر قومی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے ،سلامتی پالیسی میں بہت سے اہم قومی معاملات کو نظر انداز کرکے غیر اہم معاملات کو گھسیٹ لیا گیا ہے ۔

ملک میں دہشت گردی کی بڑی وجہ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں امریکی مداخلت ہے ،ملک و قوم کے مستقبل کوتاراج کرنے کیلئے امریکہ حکمرانوں کو اپنے ایجنڈے پر چلارہا ہے ،سلامتی پالیسی میں امریکی جنگ سے نکلنے اور امریکی مفادات کی بجائے قومی مفادات کے تحفظ کی بات ہونی چاہئے تھی مگر اس پالیسی کا اصل ہدف مساجد و مدارس اور منبر و محراب کو بنا لیا گیا ہے ۔

سلامتی پالیسی کا مرکزو محور قران و سنت کی تعلیمات کو بدل کر مساجد او رمدارس میں انگریز کے نظام تعلیم کو رائج کرنا ہے ،حکمران غلامی کی آخری حدود کو پار کرچکے ہیں ،بجائے اس کے کہ نظام تعلیم کو قران و سنت سے ہم آہنگ کیا جاتا ،مغربی نظام تعلیم کو دینی اداروں پر مسلط کیاجارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی اسلام سے متصادم پالیسیوں کی وجہ سے عوام کے اندر سخت اشتعال پایا جاتا ہے ۔

حکمران مغربی آقاؤں کے اشارے پر ملکی شناخت سے کھیل رہے ہیں ،باہر بیٹھے ہوئے لوگ ہمارے عقائد اور مذہبی معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں جس سے معاشرے میں نفرت اور کشمکش بڑھ رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کے ذہن نشین ہونا چاہئے کہ کلمہ کی بنیاد پر ملک حاصل کرنے ،تحریک نظام مصطفے ﷺ اور تحریک ختم نبوت میں بے مثال قربانیاں دینے والے کسی صورت بھی ملک کو سیکولر ازم کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے ،سٹریٹ پاور آج بھی دینی جماعتوں کے پاس ہے ۔حکمرانوں کو دینی جماعتوں سے چھیڑ چھاڑ اور معاشرے کو اتھل پتھل کرنے کے رویے سے باز آنا چاہئے ،انہون نے کہا کہ سیکولر لابی ملک میں کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑنے کی کوشش کررہی ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں