نام نہاد جمہوری حکومت کے دور میں آدھے سے زیادہ ملک میں ”مارشل لاء “نافذ ہے ‘ سید منور حسن،جیٹ طیاروں کی بمباری سے نہ امن قائم ہوسکتاہے اور نہ خود کش حملوں سے شریعت نافذ ہوسکتی ہے ،تمام مکاتب فکر کے علما مل بیٹھ کر دہشتگردی کے خاتمے اور امن کے قیام کیلئے طالبان سے مذاکرات کی میز بچھائیں ، اجتماع سے خطاب

جمعہ 24 جنوری 2014 20:02

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24 جنوری ۔2014ء) امیر جماعت اسلامی سیدمنور حسن نے کہاہے کہ جیٹ طیاروں کی بمباری سے نہ امن قائم ہوسکتاہے اور نہ خود کش حملوں سے شریعت نافذ ہوسکتی ہے ، حکومت نے تو امریکی دباؤ میں آ کر طالبان سے مذاکرات نہیں کیے ، مگر ملک کو بچانے اور اسلام کی غلط تصویر کشی کو روکنے کے لیے دینی قوتوں خاص طورپر دیو بندی مکتبِ فکر کے علما کو آگے بڑھ کر مذاکرات کی میز بچھانی چاہیے ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے جامع مسجد منصورہ میں جمعہ کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ 1973 ء کا آئین بنانے میں دینی جماعتوں کے علمائے کرام نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، اس کا تحفظ کرنا بھی دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے ۔ جس طرح قوم کے 31علما نے مل بیٹھ کر متفقہ طور پر22 نکات طے کیے تھے اب پھر وہ لمحہ آن پہنچا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علما مل بیٹھ کر دہشتگردی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات کی میز بچھائیں ۔

(جاری ہے)

جو چارج شیٹ دینی جماعتوں کے ہاتھ میں تھما دی گئی ہے ،اس کا جواب دینا ہوگا۔نام نہاد جمہوری حکومت کے دور میں آدھے سے زیادہ ملک میں ”مارشل لاء “نافذ ہے ۔ طالبان کے بارے میں یہ پراپیگنڈا کہ وہ کسی آئین و قانون کو مانتے ہی نہیں ، خاص مقاصد کے لیے کیا جارہاہے ۔شمالی وزیرستان کو تہس نہس کرنے کی امریکہ کی دیرینہ خواہش کو موجودہ حکومت پورا کر رہی ہے ۔

وزیرستان میں بمباری سے سینکڑوں لوگ لقمہ ٴ اجل بن رہے ہیں ۔ بمباری کسی ٹارگٹ کو نشانہ نہیں بناتی ، اس میں بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔ سوات اور بونیر کے بعد وزیرستان سے بھی ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ مسالک کی بنیاد پر تقسیم ، اسلام دشمن قوتوں کا امت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا صدیوں سے وطیرہ رہاہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیو بندی مکتب فکر اہل حدیث ، اہل سنت اور اہل تشیع کو ساتھ بٹھا کر اسلام کے خلاف جاری مہم کو روکنے کی موثر حکمت عملی اختیار کی جائے۔

سیدمنورحسن نے کہاکہ حکومت ایک خاص قسم کے بچاؤ اور بے حسی کی کیفیت میں مبتلا ہے ۔ وہ چاہتے ہوئے بھی طالبان سے مذاکرات کا رسک نہیں لے سکتی ۔ امریکہ کسی صورت بھی پسند نہیں کرے گا کہ اس کے بٹھائے ہوئے لوگ اس کے احکامات سے روگردانی کریں ۔ انہوں نے کہاکہ دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کو آگے بڑھائیں ۔ ملک میں آئین و دستور کا تحفظ انہی لوگوں کا فرض ہے جنہوں نے اس ملک کو اسلام کے عملی نفاذ کے لیے حاصل کیا تھا ۔

انہوں نے کہاکہ دینی لوگ اگر آج نہیں اٹھیں گے ، تو کل ان کے تمام راستے بند کر کے انہیں بند گلی میں دھکیل دیا جائے ۔انہو ں نے کہاکہ ملک میں جاری انیٹی اسلام مہم کو روکنے اور اسلام کی سچَی اور سچُی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے تمام مکتبہ ہائے فکر کو متحد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہ کام انہیں کو کرناچاہیے جن پر یہ الزام لگادیا گیاہے کہ وہ دہشتگرد اور انتہا پسند ہیں اور کسی آئین و ضابطے کے پابند نہیں ہیں ۔

انہو ں نے کہاکہ طالبان کی اکثریت چونکہ دیو بندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے ،اس لیے یہ بیڑا بھی طالبان کے اساتذہ ہی کو اٹھانا چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت ابھی تک اپنا بااخلاص اور بااختیار ہونا ثابت نہیں کر سکی۔ جس جنگ کو حکومت اپنی جنگ قرار دے رہی ہے ،وہ امریکہ کی ہیبت اور قوت کو منوانے او ر اس کے نیو ورلڈ آرڈر کو بزور قوت دنیا بھر نافذ کرنے کی جنگ ہے جس کا خاص ہدف ہی اسلام اور مسلمان ہیں ۔ انہو ں نے کہاکہ امریکہ 2014 ء میں افغانستان کو چھوڑنے اور خطے سے نکل جانے کی یقین دہانی تو کرا رہاہے ، مگر اس کی اب تک کی پالیسیاں ا س کے ان دعوؤں کی نفی کرتی ہیں ۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں