سیاستدانوں کے احتساب کیلئے نیب کی جگہ آزاد احتساب کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ، نئے ایکٹ کے تحت صدر‘ وزیراعظم‘ صوبائی گورنر‘ چیئرمین سینٹ‘ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر‘ وزرائے اعلیٰ‘ وفاقی و صوبائی وزراء ‘ وزرائے مملکت‘ اراکین پارلیمنٹ‘ پارلیمانی سیکرٹری‘ آڈیٹر جنرل‘ پولیٹیکل سیکرٹری‘ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے مشیران احتسابی عمل کی زد میں آئینگے‘وفا قی وزیر قا نون فاروق نائیک

ہفتہ 10 جنوری 2009 23:13

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10جنوری۔2009ء) حکومت نے سیاستدانوں کے احتساب کیلئے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جگہ آزاد احتساب کمیشن (آئی اے سی) قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ نیا احتسابی ادارہ نئے قانون ہولڈر آف پبلک آفسز ایکٹ 2009ء کے نفاذ کے بعد قائم ہوجائے گا جبکہ نیب خود بخود ختم ہوجائے گا، کمیشن کا چیئرمین سپریم کورٹ کا کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج ہوگا جس کو وزیراعظم اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے تعینات کرینگے جبکہ تعیناتی کی توثیق پارلیمانی کمیٹی کریگی پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے مساوی اراکین ہوں گے۔

وفا قی وزیر قانون فاروق نائیک نے ایک انگر یزی جر یدے سے خصو صی گفتگو کرتے ہوئے آزاد احتساب کمیشن (آئی اے سی) کے قیام کے فیصلے کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ تفصیلات میثاق جمہوریت میں طے کی گئی تھیں، آئی اے سی کو بنک ڈیفالٹ کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ بینک ڈیفالٹ کے زیادہ تر واقعات کے ذمہ دار خود بینک ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں بینک ڈیفالٹ کو جرم تسلیم نہیں کرتا تاہم بینک فراڈ جرم تصور کیا جائے گا، انہوں نے بتایا کہ نئے قانون (ایچ پی او اے) کا مسودہ صدر کو بھجوا دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

اس قانون کا نفاذ کابینہ، پارلیمانی کمیٹی اور پارلیمنٹ میں بحث اور منظوری کے بعد کیا جائے گا تاہم وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ہولڈر آف پبلک آفسز ایکٹ (ایچ پی او اے) صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بھی نافذ کیا جاسکتا ہے، بیورو کریٹس، بزنس مین اور دیگر پرائیوٹ افراد نئے قانون کی زد میں نہیں آئینگے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی تعزیرات پاکستان کے تحت ایف آئی اے اور دیگر سرکاری محکمے ہی کرینگے۔

نئے ایکٹ کے تحت صدر، وزیراعظم، صوبائی گورنر، چیئرمین سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء ، وزرائے مملکت، اراکین پارلیمنٹ، پارلیمانی سیکرٹری، آڈیٹر جنرل، پولیٹیکل سیکرٹری، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے مشیران احتسابی عمل کی زد میں آئینگے۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ضلعی ناظمین و نائب ناظمین اور مقامی حکومتوں کے دیگر حکام جو اس سے قبل نیب کے تحت آئے تھے نئے احتسابی ادارے کی زد میں آئینگے یا نہیں، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیب نے اپنی 9 سالہ مجموعی مدت میں 225 ارب روپے کی لوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جبکہ اس ادارے کے مجموعی اخراجات 4.6 ارب روپے تھے، ایک سوال کے جواب میں وزیر قانون نے بتایا کہ جب تک نیا احتساب ایکٹ نافذ نہیں ہوجاتا نیب بدستور کام جاری رکھے گی نئے قانون کے تحت کوئی خصوصی عدالتیں قائم نہیں ہونگی بلکہ آئی اے سی کی تحقیقات کی روشنی میں عام عدالتیں ہی مقدمات کی سماعت کرینگی۔

انہوں نے پرزور انداز میں کہا کہ نئے ادارے کے قیام کے بعد نیب کو ختم کردیا جائے اور اسکی ری اسٹرکچرنگ نہیں ہوگی۔ وزیر قانون نے بتایا کہ (ایچ پی او اے) نیا ایکٹ صرف سابق اور موجودہ پارلیمنٹریرینز پر ہی لاگو ہوگا، بیورو کریٹس اور سرکاری ملازمین کے کرپشن مقدمات 1947 اور 1958 کے ایکٹ کے تحت ہی نمٹائے جائینگے۔ انہوں نے بتایا کہ آئی اے سی کے 2 نائب چیئرمین ہونگے جو ہائیکورٹ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج ہوسکتے ہیں، انکی تعیناتی چیئرمین وفاقی حکومت کی مشاورت سے کریگا۔

مدت عہدہ مقرر شدہ ہوگی، چاروں صوبوں میں آئی اے سی کے ہیڈ کوارٹرز اور ریجنل دفاتر بھی قائم کئے جائینگے۔ نائیک نے مزید بتایا کہ ایچ پی او اے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کیخلاف مقدمات ان حلقوں میں درج ہونگے جہاں سے وہ منتخب ہوئے تھے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں