اختر جان مینگل اور دیگر پارٹی عہدیداروں کی گرفتاری کے خلاف صوبے بھر میں احتجاجی مظاہرے و ریلیاں

جمعہ 22 دسمبر 2006 21:57

کوئٹہ/خضدار/قلات/تربت(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22دسمبر۔2006ء) بی این پی کے صدر و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل اور پارٹی کے دیگر عہدیداروں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف جمعہ کے روز کوئٹہ سمیت صوبے کے متعدد اضلاع میں احتجاجی مظاہرے کئے اور ریلیاں نکالی گئیں ۔ پولیس نے خضدار اور تربت سے پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری سمیت 16افراد کو گرفتار کرلیا۔

بی این پی کی کال پر سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ یہاں صوبائی دار الحکومت کوئٹہ میں ہوا جس میں بی این پی کے علاوہ نیشنل پارٹی ، پشتونخوا میپ ، عوامی نیشنل پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں و رہنماؤں نے شرکت کی ۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے 26دسمبر کو کوئٹہ سمیت صوبہ بھر میں پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا۔

(جاری ہے)

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ہونے والے احتجاجی مظاہرے سے بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نیشنل پارٹی کے رہنماء کچکول علی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملک میں ظالم حکمرانوں کی جانب سے انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ان مظالم کی مثال دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ اوچھے ہتھکنڈوں سے تحریکیں نہیں دبتی ہیں اگر ایسا ہوتا تو آج بنگلہ دیش الگ نہ ہوتا انہوں نے کہا کہ ایک چیز واضح ہے کہ جن لوگوں کے جمہوری جدوجہد کا راستہ روکا جاتا ہے تو وہ پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں یہاں بلوچستان میں گرفتاریوں کے حوالے سے صوبائی حکومت مکمل بے بس نظر آتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا انہوں نے کہا کہ 16ایم پی او کے تحت گرفتاریاں بلا جواز اور قابل مذمت ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سب سے قابل شرم عمل یہ ہے کہ آج وکلاء بھی جیلوں میں قید ہیں اور ججز کو خاموش تماشائی نہیں بننا چاہئے اور اگر اب بھی اس صورتحال کو نوٹس نہ لیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ گرفتاری سیاسی کارکنوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے ۔ اس موقع پر بلوچستان اسمبلی میں پشتونخوا میپ کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ مشرف کی صوبے کو ترقی دینے کے تمام دعوے جھوٹے ہیں اور ان دعوؤں کے ذریعے مرکز یہاں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے ملک کی اسمبلیاں اورپارلیمنٹ ربڑ اسٹمپ کی مانند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں موجودہ حکومت سے خیر کی توقع نہیں ہے انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے جمہوری جدوجہد کے راستے روکے گئے اورتو ہم دوسرا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں گے انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اس ملک کے صدر نہیں بلکہ ایک جرنیل ہیں اور جرنیل سرکاری ملازم ہے سرکاری ملازم کا صدر بننا سراسر غیر آئینی ہے ۔ مظاہرے سے بی این پی کے مرکزی کونسل کے ممبر نوردین مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب سے یہ ملک بنا ہے یہاں ظلم و ستم کا بازار گرم ہے حقوق کی جنگ میں قید وبند اور دیگر اوچھے ہتھکنڈوں سے ہمیں ہراساں نہیں کیا جاسکتا اورآج ہمیں پہاڑوں سے قربانیوں والی خون کی بور آرہی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ مسائل وسائل پر قبضہ گیری کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی ۔ مظاہرے کے موقع پر غلامی نیشنل پارٹی کے کمانڈر خدائید، پیپلزپارٹی کے علی مدد جتک ، ہزار ڈیمو کریٹک پارٹی کے ابراہیم ہزارہ، بی ایس او کے جاوید بلوچ اور بلوچ بار ایسوسی ایشن کے سعید کرد نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے صوبے سے سیاسی کارکنوں کی گرفتایوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے تاہم بعدازاں یہ احتجاجی مظاہرہ حکومت کے خلاف نعرہ بازی کی گونج میں پر امن طور پر اختتام پذیر ہوگیا ۔

دریں اثناء نوشکی ، مستونگ، خضدار، قلات، تربت، پنجگور اور دیگر بلوچ اکثریتی اضلاع میں سیاسی رہنماؤں و کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے،مظاہرین سے بی این پی،نیشنل پارٹی ، بی ایس او دیگر سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔ دریں اثناء خضدار میں بی این پی کی ریلی پر پولیس نے دھاوا بول دیا ضلعی جنرل سیکرٹری سمیت6افراد کو گرفتار کرلیا گیا پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری دن بھر شہر میں گشت کرتی رہی ۔

تفصیلات کے مطابق بی این پی کی کال پر سیاسی کارکنوں و رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف ضلعی دفتر سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی کہ پولیس کی بھاری نفری نے ڈی ایس پی محمد اسلم کی سربراہی میں ریلی پر دھاوا بول دیا اور ریلی میں شریک شرکاء پر لاٹھی چارج کی گئی اس موقع پر پولیس نے بی این پی کے ضلعی جنرل سیکرٹری سعدا للہ بلوچ، طارق طارق،امان ، میٹھا خان، شفیع بلوچ، ذوالفقار اور ایک دوسرے شخص کو گرفتار کرکے سنٹرجیل منتقل کردیا ۔ تربت میں بھی10افراد کو گرفتارکرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

متعلقہ عنوان :

خضدار میں شائع ہونے والی مزید خبریں