سعودی عرب میں پاکستانی فوج بھیجنے سے قبل حکومت فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرے ، مولانا فضل الرحمن

سیاست دان مل کر ملکی مفاد کے حوالے سے کوئی حل تلاش کرسکیں لیکن حرمین شریفین پر براہ راست حملے کی باتیں کرنے والوں کو اپنی حد میں رہنا چاہئے، مولانا فضل الرحمن سے ملاقات ملکی اور عالمی حالات کے ضمن میں سیر حاصل اور تسلی بخش رہی، پیر پگارا ، کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے امت مسلمہ کے جذبات مجروح ہوں، پیر پگارا سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب

اتوار 29 مارچ 2015 19:29

سعودی عرب میں پاکستانی فوج بھیجنے سے قبل حکومت فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرے ، مولانا فضل الرحمن

کراچی (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار29مارچ ۔2015ء) جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی فوج بھیجنے سے قبل حکومت فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرے تاکہ سیاست دان مل کر ملکی مفاد کے حوالے سے کوئی حل تلاش کرسکیں لیکن حرمین شریفین پر براہ راست حملے کی باتیں کرنے والوں کو اپنی حد میں رہنا چاہئے۔

کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے امت مسلمہ کے جذبات مجروح ہوں۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی پیر پگارا نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات ملکی اور عالمی حالات کے ضمن میں سیر حاصل اور تسلی بخش رہی۔ ان کا تجزیہ میرے لئے علاقائی اور عالمی حالات کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو پیر پگارا کی رہائش گاہ راجہ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

اس موقع پر مسلم لیگ فنکشنل کے مرکزی رہنما پیر صدر الدین شاہ راشدی، کامران ٹیسوری، جے یو آئی (ف) کے رہنما قاری محمد عثمان اور دیگر بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن پیر صاحب پگارا کی دعوت پر ان کی رہائش گاہ راجہ ہاؤس ظہرانے میں پہنچے اور ملاقات کی۔ یہ ملاقات تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارا آپس میں محبت کا رشتہ ہے۔

میرے اور ان کے والد آپس میں دوست تھے اور ہم نے محبت کے اس رشتے کو اب بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ ہم بزرگوں کی اس روایت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری گزشتہ روز آصف علی زرداری اور آج پیر صاحب پگارا سے ملاقات اگرچہ کسی خاص ایجنڈے کا حصہ نہیں لیکن موجودہ حالات میں انتہائی اہم ہے۔ میں نے خود یہ کوشش کی ہے کہ ان سے ملاقات کرکے صورت حال پر بات چیت کی جائے تاکہ صورت حال کو سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔

اس وقت ملک کافی مشکلات سے گزر رہا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات عقیدت اور احترام، بھائی چارے اور تاریخی ہیں، جن کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب نے ہماری ہر آزمائش پر ہمارا ساتھ دیا اور ہم بھی پورے اترے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عربوں کے باہمی معاہدات کے نتیجے میں جو بھی فیصلہ ہو انہیں خود کرنے دیا جائے۔ کچھ لوگ بے احتیاط ہو کر بات کرتے ہیں اور حرمین شریفین کو نشانہ بنانے کی باتیں ہوتی ہیں۔

میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ احتیاط سے کام لیں اور حد میں رہیں اور اس طرح سے امت مسلمہ کے جذبات مجروح ہوں گے۔ ہمیں کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہئے جس سے عالم اسلام مشکلات میں پڑجائے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں امن وسلامتی اور بھائی چارے کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اسی طرح آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک سعودی عرب پاکستانی فوج بھیجنے کا معاملہ ہے یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

حکومت کو بھی جلد بازی کے بجائے مشاورت سے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں سعودی عرب سے اپنے گہرے تعلقات عقیدت واحترام اور پڑوس کے تعلقات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ پاکستان اسلامی دنیا کا اہم ترین اور 20 کروڑ مسلمانوں کا ملک ہے۔ پاکستان کو ان مشکلات حالات میں مسئلے کو حل کرنے کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے اور پاکستان کو کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔

افغانستان کے مسئلے پر ہم کئی سال سے اب تک پھنسے ہوئے ہیں اور باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ عالمی سامراج کی یہ کوشش ہے کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان مشکل میں پھنس جائے لیکن ہمیں احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلائے کیونکہ جب بھی سیاسی کارکن مل بیٹھتے ہیں تو کسی بھی مسئلے کا مناسب حل تلاش میں کامیاب ہوتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ ہمارے اختلافات بھی ہیں لیکن ان میں ہم نے اتنی کشیدگی پیدا نہیں کی ہے کہ بات چیت نہ ہوسکے۔ سیاسی قیادت جب بھی مشاورت کرتی ہے اس کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مدارس کے حوالے سے ہم 2005ء اور 2010ء کے معاہدات کے پابند ہیں اور حکومت بھی ان کی پاسداری کرے۔

آئے روز ایجنسیوں کی جانب سے نئے نئے فارمولے اور نئی نئی تجاویز کے ذریعے مدارس کو تنگ کرنا حدود سے تجاوز کرنا ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات سے قبل آصف علی زرداری کی رہائش گاہ پر ہونے والی سیاسی قوتوں کی ملاقات میں سب نے اصولی طور پر اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ 21 ویں ترمیم میں اصلاح کی جائے کیونکہ مذہبی طبقہ اس کو اپنے خلاف سمجھتا ہے اور ان میں تشویش پائی جاتی ہے۔

آئندہ ہفتے وزیراعظم سے ملاقات ہوگی تو اس ایشو پر پھر بات ہوگی۔ اس موقع پر پیر صاحب پگارا نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن میرے گھر آئے یہ ان کی بڑی مہربانی ہے۔ دو سے ڈھائی گھنٹے ہماری ملاقات جاری رہی۔ اس ملاقات میں پاکستان کے اندرونی اور عالمی حالات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن نے حالات پر جو تجزیہ پیش کیا ہے میں اس سے متفق ہوں کہ ان کا تجزیہ موجودہ حالات کے عین مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد مرحوم پیر صاحب پگارا اور ان کے والد مرحوم مفتی محمود بہت اچھے دوست تھے اور اپنے والد کے انتقال کے بعد مولانا فضل الرحمن نے میرے والد کے ساتھ اپنے والد کے رشتے کو برقرار رکھا اور آج بھی یہ رشتہ قائم ودائم ہے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں