مرگی 70فیصد قابل علاج مرض ہے ،ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

دنیا بھر میں 2اعشاریہ 5 فیصد بچے ناقابل علاج مرگی کا شکار ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں مرگی کا شکار 7فیصد بچے ناقال علاج مرگی کا شکار ہیں ، بھارت میں یہ تعداد 4فیصد ہے، ماہر دماغی امراض آغاخان اسپتال

ہفتہ 28 فروری 2015 22:10

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔28فروری۔2015ء ) آغاخان اسپتال کی دماغی امراض کی ماہرڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ مرگی 70فیصد قابل علاج مرض ہے ، دنیا بھر میں 2اعشاریہ 5 فیصد بچے ناقابل علاج مرگی کا شکار ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں مرگی کا شکار 7فیصد بچے ناقال علاج مرگی کا شکار ہیں ، بھارت میں یہ تعداد 4فیصد ہے ۔ پاکستان میں دولاکھ افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں جن میں سے 50 ہزار مریض مرگی کا علاج کروارہے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ افراد مرگی کے علاج سے دور ہیں،علاج کے نتیجے میں مرگی سے متاثرہ ایک لاکھ افرادمعاشرے کا صحت مند شہری بنایا جا سکتا ہے ۔

۔وہ پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی اور نیورولوجی ایویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے تحت مقامی ہوٹل میں مرگی کے مرض سے متعلق آگہی پروگرام کی ڈی وی ڈی کے اجراء کی تقریب سے خطاب کر رہی تھیں ۔

(جاری ہے)

تقریب سے پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے صدراور آغاخان اسپتال کے نیورولوجسٹ پروفیسر محمد واسع شاکر ، سیکریٹری اور ڈاؤ یونیورسٹی کی نیورولوجسٹ ڈاکٹر نائلہ شہباز ،ضیاء الدین اسپتال کے ڈاکٹر رشید سومرو، ڈاؤ یونیورسٹی کے پروفیسر ضیاء الرحمن ، ڈاکٹر عبد المالک اور فارما کمپنی کے نوید اختر نے بھی خطاب کیا۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ پاکستان میں مرگی کے شکار بچوں میں سے 7فیصد کو ناقابل علاج مرگی یعنی لینوٹ کیسٹروٹ سینڈروم لاحق ہے اور اپنی حالیہ تحقیق میں یہ دیکھاہے کہ بچوں کومرگی کی ناقابل علاج شکل لاحق ہونے کی بنیادی وجہ دوسری بیماریوں کے انفیکشنز ہیں اور ان انفیکشنز کے نتیجے میں بچوں کے دماغ پر نفسیاتی اثر مرتب ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انہیں ناقابل علاج مرگی لاحق ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈی میں کسی ایک سرکاری اسپتال میں دماغی امراض میں مبتلا 3سوسے 4سو مریض روزانہ آتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مرگی کی بہت سی اقسام ہیں اور ڈاکٹروں کی اکثریت اس سے لاعلم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مرگی کے مریض کا غلط علاج شروع ہوجاتا ہے یا دوائیں کم دینے کے بہ جائے دواؤن کی تعداد یا خوراک بڑھا دی جاتی ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ دنیا میں مرگی کی 30ادویات ہیں جن میں سے 25ادویات پاکستان میں موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ، مرگی کے ہر عمر کے مریضوں کے علاج کے لیے الگ الگ 50سے زائد گائیڈ لائنز ہیں ۔جس میں ڈاکٹروں اور مریضوں کو احتیاط کے ساتھ ساتھ علاج کے مختلف طریقے بتائے گئے ہیں ۔ پروفیسر واسع شاکر نے کہا کہ مرگی کادورہ دماغ میں برقی خلل کی وجہ سے بنتا ہے۔

یہ دماغی خلل پورے جسم پر اثر انداز ہوتاہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرگی کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کی بڑی تعداد ایسی ہے جنہیں تربیت دینے کی ضرورت ہیں ، عام افراد کی طرح ڈاکٹروں کی اکثریت بھی مرگی کے مرض سے لاعلم ہوتی ہے اور اس کی تشخیص نہیں کر پاتی ۔ انہوں نے کہا کہ مرگی کے تمام مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کسی نہ کسی دوا پر رکھا جائے اور پاکستان میں بہت سی دوائیں ایسی ہیں جو سستی ہیں ، پاکستان میں ایسی دوائیں بھی موجود ہیں جو 10روپے میں پورا مہینہ استعمال کی جا سکتی ہیں ، ایسے افراد جو مہنگی دوائیں استعمال نہیں کر سکتے وہ ان سستی دواؤں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی خواتین جو حاملہ ہیں وہ احتیاط کے ذریعے تندرست اور نارمل بچہ کو جنم دے سکتی ہیں ۔ پاکستان میں مختلف اقسام کی مرگی موجود ہے جس کی درست تشخیص کے بعد ہی اس کے مطابق علاج کی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں اس کے لیے ڈاکٹروں کو مرگی میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے ۔ مختلف انسانوں میں یہ دورے مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مرگی کی بیماری سے متعلق منفی تاثرات پائے جاتے ہیں ،پاکستان میں مرگی کا مرض عموماً پیدائش کے عمل ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث لاحق ہوتا ہے۔

مرگی ایک ایسی بیماری ہے جس کے متعلق سب سے زیادہ توہمات پائی جاتی ہیں۔ اس کو اکثر جادو ٹونا سمجھا جاتا ہے اور مرگی کے مریضوں کو آسیب زدہ یا مجذوب کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس بیماری کے حوالے سے آگاہی کی کمی کے باعث بہت سے توہمات نے جنم لیا ہے جن میں مرگی کو ذہنی معذوری یا جادو سے تشبیہ دی جاتی ہے اور ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جن میں مرگی کے مریضوں کو باندھ دیا جاتا ہے یا زدوکوب کیا جاتا ہے۔

مرگی کے زیادہ تر مریض نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ ڈپریشن شامل ہے۔ڈاکٹروں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ایسے مریضوں کو کس طرح علاج کی سہولت پہنچانی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرگی کے 90فیصد مریض اپنے مرض پر قابو پاسکتے ہیں اور عام انسان کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں ، وہ ڈاکٹر ، استاد اور کسی بھی شعبے میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مرگی کے مرض کا پھیلاؤ ایک فیصد ہے۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں