غیر معیاری، ناقص اور جعلی ادویات مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں، کھانے پینے کی چیزوں اور دوائوں میں بہت ملاوٹ ہو رہی ہے ،ْ اراکین سینٹ

ڈرگ انڈسٹری کے اوپر بہت شکوک و شبہات ہیں، ادویات کے معیاری ہونے پر کسی کو تسلی نہیں ہے ،ْ اعظم سواتی ادویات میں غیر معیاری مٹیریل استعمال کیا جا رہا ہے، ادویات پر کسی کی مناپلی نہیں ہونی چاہیے ،ْ سینیٹر محسن عزیز مارکیٹ سے ساڑھے پانچ ہزار دوائوں کے سیمپلز لئے گئے‘ دوائوں پر بار کوڈ متعارف کرائے ،ْسائرہ افضل تارڑ

پیر 6 نومبر 2017 19:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 نومبر2017ء) اراکین سینٹ نے کہاہے کہ ملک میں غیر معیاری، ناقص اور جعلی ادویات مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں، کھانے پینے کی چیزوں اور دوائوں میں بہت ملاوٹ ہو رہی ہے ،ْڈرگ انڈسٹری کے اوپر بہت شکوک و شبہات ہیں ،ْادویات کے معیاری ہونے پر کسی کو تسلی نہیں ہے جبکہ وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے کہا ہے کہ مارکیٹ سے ساڑھے پانچ ہزار دوائوں کے سیمپلز لئے گئے‘ دوائوں پر بار کوڈ متعارف کرائے۔

پیر کو سینٹ اجلاس کے دور ان اعظم سواتی نے ادویات کی دستیابی، معیار اور ان کی قیمتوں میں اضافے پر نظر رکھنے کے خصوصی حوالے سے ڈرگ ریگولیٹری آف پاکستان کی مجموعی کارکردگی کو زیر بحث لانے کی اپنی تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ڈرگ انڈسٹری کے اوپر بہت شکوک و شبہات ہیں، ادویات کے معیاری ہونے پر کسی کو تسلی نہیں ہے، ڈرگ انڈسٹری پر کسی کو اعتماد نہیں ہے، عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے قوانین کو تماشا بنانے والوں کے کارٹیل کو توڑنا ہو گا۔

(جاری ہے)

سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور ڈرگز کے حوالے سے سینٹ کی کمیٹی نے بہت کام کیا ہے، ہمارے ملک میں اربوں کی ادویہ باہر کے ملکوں میں بھیجی جا رہی ہیں، اگر یہ ادویات ناقص اور غیر معیاری ہوتیں تو امریکہ اور کینیڈا جیسے ملکوں میں ہماری ادویات نہ جا رہی ہوتیں، اس حوالے سے ڈریپ کا بڑا کردار ہے، جسے سراہنا چاہیے، اس وقت ساڑھے 800 کمپنیاں ہیں، جن میں سے کئی بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہیں، سینیٹر اعظم سواتی کی باتوں اور خالیات سے اتفاق نہیں ہے۔

سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ ادویات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جس کو چیک کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کو غیر معیاری اور جعلی ادویات کو روکنا چاہیے۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ پورے ملک میں غیر معیاری ادویات فروخت ہو رہی ہیں، وفاقی و صوبائی حکومتیں اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ادویات میں غیر معیاری مٹیریل استعمال کیا جا رہا ہے، ادویات پر کسی کی مناپلی نہیں ہونی چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف ملے۔ سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ ادویات پر خرچ بہت کم آتا ہے لیکن اس کی بے تحاشا قیمت مقرر کر دی جاتی ہے، اس میں بہت سے لوگوں کا کمیشن ہوتا ہے۔ یہ معاملہ کمیٹی کو بھجوایا جائے۔ پرائیویٹ کمپنیاں ڈاکٹروں کو بیرون ملک سیریں کراتے ہیں اور گاڑیاں دیتے ہیں اور وہ کمپنیوں کی ادویہ لکھ کر دیتے ہیں۔

چیئرمین اس پر رولنگ دیں۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ امریکہ میں ایف بی اے بہت بڑا مافیا ہے، کیوبا کی سستی دوائیں وہاں نہیں لانے دیتے، پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے، پاکستان میں بھٹو نے اس سلسلے میں اہم اقدامات کئے، پاکستان میں خوراک اور ادویات میں بہت ملاوٹ ہوتی ہے، بڑی فارما کمپنیاں بہت پیسے کما رہی ہیں، بھارت میں ادویات بہت سستی ہیں اور معیار بھی بہتر ہے۔

سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ ملاوٹ کرنے والوں کو اللہ کا خوف نہیں ہے، ملاوٹ کی وجہ سے بیماریاں عام ہیں، حکومت اس حوالے سے اقدامات کرے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ سندھ میں دو مقامات پر مفت لیور ٹرانسپلانٹ ہو رہا ہے، دوائوں کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے، ادویات کے معیار اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی ضڑورت ہے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ڈاکٹروں کو مخصوص ادویات فروخت کرانے کے عوض گاڑیاں دی جاتی ہیں، سٹنٹس کا معاملہ بھی بہت اہم ہے، غیر معیاری ادویات وبال جان بن چکی ہیں۔

سینیٹر اعظم سواتی کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی اور ادویات کی قیمتوں اور معیار کی جو تصویر کشی یہاں کی گئی ہے وہ درست نہیں، جب بھی کوئی دوائی رجسٹرڈ ہوتی ہے تو اس کی دستیابی کو یقینی بنانا ضروری ہوتا ہے، ٹی بی کی دوائیوں کی کمی ہوئی تو ان کمپنیوں کو کہا گیا کہ دوائی کی دستیابی کو یقینی بنائیں اور ایسا کیا گیا، چھ ماہ سے کسی دوائی کی قلت نہیں، جو تین سال میں ہم نے دوائوں کے معیار کے حوالے سے کیا ہے 70 سال میں نہیں کیا گیا، ساڑھے پانچ ہزار سیمپلز مارکیٹ سے لئے گئے اور 1450 کیس رجسٹرڈ کئے گئے اور دو آدمیوں کو دس دس سال قید کی سزا ہوئی۔

880 کیسز کا فیصلہ ہو چکا ہے جن میں متعلقہ کمپنیوں کو ساڑھے 3 کروڑ جرمانہ ہوا ہے، جہاں جہاں جعلی ادویات بنتی ہیں وہاں چھاپے مارے گئے ہیں، فیکٹریوں کا معائنہ کیا جاتا ہے اس کے بعد لائسنس دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سوائے دو کے کسی دوائی کا خام مٹیریل نہیں، ہم آئے تو انڈسٹری میں کوئی دوا کسی عالمی ادارے سے منظور شدہ نہیں تھی، چار کمپنیاں ڈبلیو ایچ او کے تمام پروٹوکولز کر چکی ہیں، ہم نے بارکوڈنگ متعارف کرائی ہے، بار کوڈ سے دوا کے جنیوئن ہونے کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوائوں کی قیمتیں کہا گیا بھارت میں کم یہاں زیادہ ہیں، پاکستان میں دوائوں کی قیمتیں کنٹرول کی جاتی ہیں، پاکستان میں جڑی بوٹیوں کے حوالے سے بہت پوٹینشل ہے، اس میں ایکسپورٹ کا بھی بہت پوٹینشل ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارما انڈسٹری کی ایکسپورٹس بڑی ہیں، معیار ہے تو دوائیں باہر جا رہی ہیں، بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں