چترال ،مبینہ غفلت کی وجہ سے 13 سالہ محمد فرحان کے موت پر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈنٹل کونسل نے متعلقہ ڈاکٹروں کو نوٹس جاری کردیا

اتوار 27 نومبر 2016 18:40

4چترال (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 نومبر2016ء) چترال سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی گل حماد فاروقی کا جواں سال بیٹا محمد فرحان جو پشاور کے سرکاری ہسپتالو ں میں ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت کی وجہ سے جاں بحق ہوا تھا جس کی خبر تمام صحافی برادری نے میڈیا پر اٹھایا تھا۔ دی نیوز اسلام آباد کے ایک خبر پر چئیرمین نیشنل کمیشن فار ہیومن رایٹس اسلام آباد جسٹس علی نواز چوہان نے اس پر از خود نوٹس لیکر سیکرٹری ہیلتھ خیبر پحتون خواہ سے جواب طلبی کی ہے۔

محمد فرحان مرحوم کے والدین نے رجسٹرار پاکستان میڈیکل اینڈ ڈنٹل کونسل کو بھی تحریری شکایت بھیجا تھا جس پر کاروائی کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار نے حیات آباد میڈیکل کمپلکس سرجیکل اے وارڈ کے ڈاکٹر صدیق احمد ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر/سپرنٹنڈنٹ ، لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور نصیر اللہ خان بابر میموریل ہسپتال کے MS/MD کو بھی نوٹس جاری کرکے ان سے اس بابت جواب طلبی کی ہے۔

(جاری ہے)

محمد فرحان کے موت جو قتل کے مترادف ہے اس کے حلاف ان کے والدین نے ڈائیریکٹر انسانی حقوق سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد اور پشاور ہائی کورٹ کے ڈائیریکٹر ہیومن رائٹس کو بھی تحریری شکایت بھیجے تھے جس پر دونوں عدالتوں نے صوبائی سیکرٹری صحت کے پی اور متعلقہ ہسپتالوں کے ایم ڈی کو نوٹس جاری کئے ہیں اور ان سے جواب طلبی کی ہے۔واضح رہے کہ تیرہ سالہ محمد فرحان جو کلاس ششم کا طالب علم تھا اس کی پیٹ میں درد، بخار اور الٹیاں لگنے کی شکایت پر اسے فوری طور پر 29 جولائی کو نصیر اللہ خان بابرہسپتال کوہاٹ روڈ پشاور کے ایمرجنسی، کیجولٹی لے گئے تھے اس کے بعد اسی دن دوبارہ اسے چلڈرن او۔

پی۔ڈی لے گئے جہاں ڈاکٹر سپین گل نے اس کا الٹرا سائونڈ کرواکے اسے صحت مند قرار دیکر گھر بھیج دیا۔اگلے دن 30 جولائی کو اس کا درد مزید بڑھ گیا تو اسے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے مین کیجولٹی لے گئے جہاں ڈاکٹر جہانگیر نے اسے چلڈرن سرجیکل ایمرجنسی یونٹ ریفر کیا مگر وہاں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے اس کا ایکسرے کرانے کے بعد اسے صحت مند قرار دیکر گھر بھیج دیا۔

اسی دن رات گیارہ بجے فرحان کو مزید تکلیف ہوا، چھوٹا پیشاب بند ہوا اور الٹیاں لگی جسے فوری طور پر ایک بار پھر LRH کے کیجولٹی لے گئے اور ڈاکٹر جہانگیر نے دوبارہ اسے چلڈرن سرجیکل ایمرجنسی یونٹ ریفر کیا مگر وہاں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے اسے داحل نہیں کیا نہ اس کی اپینڈکس کا آپریشن کروایا حالانکہ اسے اپینڈکس کی بیماری لاحق تھی۔ 2 اگست کو اسے حیات آباد میڈیکل کمپلکس کے او۔

پی۔ ڈی۔ لے گئے جہاںڈاکٹروںنے بتایاکہ اس کا اپینڈکس پہلے سے پھٹ چکا ہے مگر انہوںنے پھر بھی فوری طور پر اس کا اپریشن نہیں کیا گل حماد فاروقی نے بتایا کہ اسی وارڈ کے سرجن ڈاکٹر صدیق احمد کو انہوںنے فون کر کے درخواست کی کہ اس کا بیٹا Serious ہے اور اس کی فوری اپریشن کا بندوبست کیا جائے مگر وہ اس کے پاس تک نہیں گیا۔ شام چھ بجے کے قریب فرحان کا اپریشن بارہ گھنٹے کی تاحیر سے اس وقت ہوا جب اسکے جسم میں اپینڈکس پھٹنے سے زہر پھیل چکا تھا مگر اس کی اپریشن میں کوئی کنسلٹنٹ موجود نہیں تھا سرف TMO زیر تربیت ڈاکٹروں نے اس کا اپریشن کیا جو ناکام ہوا اور وہ رات تین بجے سیریس ہوا اسے انتہائی نگہداشت کے یونٹ ICI کو ریفر کیا گیا مگر وہاں بیڈ حالی نہیں تھے جسے بعد میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے آئی سی یو ریفر کرکے لے گئے اور ایک گھنٹے کے بعد فرحان کا انتقال ہوا۔

مقامی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے فرحان مرحوم کے والد نے اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کیا کہ سرکاری ہسپتالوں میں لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے ڈاکٹر مریضوں کا صحیح طور پر معائنہ نہیں کرتے اور نہ سینئر ڈاکٹر وہاں غریب مریضوں کا اپریشن کرواتے ہیں وہ صرف اپنے نجی کلینکوں میں مریضوں کا اپریشن خود کرتے ہیں جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

انہوںنے صوبائی حکومت اور پولیس کی کارکردگی پر کھڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کے پی پولیس چار ماہ میں بھی ان ڈاکٹروں کے حلاف FIR درج نہ کرسکے اور نہ وزیر اعلے شکایت سیل نے کوئی نمایاں کارکردگی دکھائی انہوںنے کہا کہ ان دفاتر پر صوبائی حکومت لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں جو وقت اور پیسے کی ضیاع ہے مگر غریب عوام سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا انہوں نے اپنا مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک سینئر صحافی ہونے کے باوجود بھی چئیرمین وزیر علے شکایات سیل اور انسپکٹر جنر ل آف پولیس نے ان ڈاکٹروں کے حلاف کوئی کاروائی نہیں کی حالانکہ ان کو پانچ بار درخواستیں اور یاد دہانی بھی بھیجے گئے۔

اگر ان کی کارکردگی مایوس کن ہو تو ان کو بند کرنا چاہئے اور یہ پیسہ کسی فلاحی کام پر خرچ کرنا چاہئے۔عوام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ کسی بھی ڈاکٹر یا ہسپتال کے حلاف اگر کوئی شکایت ہو تو شکایت کنندہ کو چاہئے کہ اپنا درخواست بیس یا تیس روپے کے سٹام پیپر پر لکھ کر اپنے علاوہ دو گواہوں سے بھی دستخط لے اور اسے مجسٹریٹ درجہ اول سے تصدیق کرواکر رجسٹرار پاکستان میڈیکل اینڈ ڈنٹل کونسل G-10/4 Mauve area اسلام آباد فون نمبر 051-92106163, 92106166 پر بھیجے جس پر کاروائی کرتے ہوئے اس ڈاکٹر کا لائسنس منسوح ہوسکتا ہے۔

علاوہ ازیں عوام کو یہ بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی پر چئیرمین نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق Evacuee Trust complex آغا خان روڈ F-5/1 اسلام آباد فون نمبر 051-9216771 پر اپنا تحریری شکایت اور کاغذات بھیجا کرے جس پر جسٹس علی نواز چوہان چیرمین از خود نوٹس لیکر کاروائی کرتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی بھی شکایت کے صورت میں عوام ڈائیریکٹر انسانی حقوق سپریم کورٹ آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کو بھی اپنا تحریری شکایت بھیج سکتا ہے۔

سماجی اور سیاسی طبقہ فکر اور صحافی برادری نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈنٹل کونسل اور چئیرمین نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق اسلام آباد کی کارکردگی سراہتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ملک خداداد میں جہاں ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے اس ملک میں جسٹس علی نواز چوہان چئیرمین نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق اور رجٹرار ڈاکٹر سید مظہر علی شاہ پی ایم ڈی سی جیسے لوگ خدا ترس اور ایماندار لوگ بھی رہتے ہیں جو غریبوں کی فریاد سنتے ہیں اور بعض معاملات پر از خود نوٹس بھی لیتے ہیں ۔

حالانکہ متاثرہ صحافی نے ان ڈاکٹروں کے حلاف متعلقہ تھانوں ، انسپکٹر جنرل آف پولیس اور صوبائی وزیر اعلے اور چیرمین وزیراعلے شکایا ت سیل کو کئی درخواستیں دی مگر ان ڈاکٹروں کے حلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی جس پر صحافی نے عدالت سے رجوع کرکے 22-A کے تحت ان کے حلاف FIR درج کرنے کی درخواست جمع کی۔مقامی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے محمد فرحان مرحوم کے والد گل حماد فاروقی نے کہا کہ فرحان شہید کا خون رنگ لائے گا اور اس کی موت ہزاروں بچوں اور مریضوں کیلئے رحمت کا باعث ہوگا کیونکہ انہوںنے سرکاری ہسپتالوںمیں ان بے ضمیر اور درندہ صفت ڈاکٹروں کے حلاف قلمی جہاد کا تہیہ کیا ہے جو ہسپتالوں میں غریب مریضوں کو نظر انداز کرکے صرف اپنے نجی کلینک پر توجہ دیتے ہیں اگر ان میں چند ڈاکٹروں کی لائسنس منسوح ہوئی اور عدالت سے ان کو سزا ہوئی تو باقی ڈاکٹر بھی محتاط ہوں گے اور وہ آئندہ کسی مریض کے زندگی سے کھیل کر ان کو موت کے منہ میں نہیں دھکیلیں گے۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کار خیر میں ان کے ساتھ تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ ان کیلئے دعائیں بھی کرے تاکہ اللہ تعالی انہیں اس نیک مقصد میں کامیاب کرکے ان کے ذریعے ان بے ضمیر ڈاکٹروں کو سزا دلوادیں جو مریضوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے اس موقع پر انہوںنے اس بات کی وضاحت کی کہ وہ سب ڈاکٹروں کو برا تو نہیں کہتے کیونکہ ان میں یقینی طور پر اچھے اور ایماندار، خدا ترس ڈاکٹر بھی ہوں گے جو مریضوں کا ہر طرح حیال رکھتے ہیں مگر وہ صرف ان ڈاکٹروں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کی کوشش میں لگا ہے جو مریض کی جان بچانے کی بجائے وہ صرف پیسہ بٹورنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں ان کی غفلت کی وجہ سے کئی مریض یا تو معذور ہوگئے یا جان سے گئے۔

نیز انہوںنے اس موقع پر یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ایک صحافتی تنظیم کی صدارت کرتا ہے اور عوام کو اگر کسی بھی قسم کی شکایت ہو تو ان سے رابطہ کرے معلومات فراہم کرے اور ان کی تنظیم اس مسئلے کو میڈیا کے ذریعے اجاگر کرے گا۔

متعلقہ عنوان :

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں