چترال ،سیلاب میں بہنے والی16 لاشیں دریا سے برآمد، ورثاء کے حوالے

جی او سی ملاکنڈ ڈویژن میجر جنرل آصف غفور کا متاثرہ علاقے کا دورہ ،متاثرہ لوگوں میں امدادی سامان کی تقسیم

پیر 4 جولائی 2016 18:04

چترال (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔04 جولائی ۔2016ء) چترال کی وادی اُرسون میں ہفتے کے رات تباہ کن سیلاب میں جو 31لوگ بہہ گئے تھے ان میں سے16 لاشیں برآمد کی گئی ، یہ لاشیں ارسون نالے میں بہہ کر دریائے چترال میں گر ی تھیں جو افغانستان میں داخل ہوتا ہے ، افغانستان کی ضلع ناڑئی میں دریا سے پندر ہ لاشیں نکالی گئی جن کو اپنے ورثاء کے حوالہ کی گئی۔

ان کی نماز جنازہ ارسون میں ادا کی گئی جن کو بعد میں اپنے اپنے آبائی قبرستا ن میں سپرد خاک کیاگیا ۔جنرل آفیسر کمانڈنگ ملاکنڈ ڈویژن میجر جنرل آصف غفور نے متاثرہ علاقے کا ہیلی کاپٹر کے ذرریعے دورہ کیا۔متاثرہ لوگوں میں پاک فوج، ضلعی انتظامیہ، الخدمت فاؤنڈیشن اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی جانب سے امدادی سامان تقسیم کی گئی جو زیادہ تر آشیائے خوردنوش اور حیموں پر مشتمل تھی۔

(جاری ہے)

تاہم تباہ شدہ وادی ارسون میں ابھی تک سڑکیں بحال نہیں کی گئی اور لوگ پیدل جانے پر مجبور ہیں۔ صر ف ہائی سکول کے سامنے تک گاڑیاں جاسکتی ہیں اس کے بعد سیلاب نے پورے سڑک کو تباہ کیا ہے اور اس پر لوگ بمشکل پیدل چل سکتے ہیں۔سیلاب سے متاثرہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کو امدادی سامان کے ساتھ ساتھ ان کی تباہ شدہ سڑکوں اور راستوں کو بھی فوری طور پر بحال کیا جائے تاکہ وہ اپنے گھروں سے سامان گاڑیوں کے ذریعے منتقل کرے۔

متاثرہ علاقے کا ایم این اے چترال افتحار الدین، ایم پی اے سلیم خان ، پی ٹی آئی لیڈر عبد الولی خان ،ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ، ڈپٹی کمشنر، ڈی ایچ او، جی او سی ملاکنڈ ، کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس اور دیگگر عہدیداروں نے دورہ کیا۔تاہم لوگ اب بھی سہمے ہوئے ہیں اور سیلاب کے بعد ڈرے ہوئے ہیں جب بھی آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں تو یہ لوگ کسی محفوظ مقام کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔

متاثرہ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس وادی میں ایک فری میڈیکل کیمپ کا اہتمام کیا جائے تاکہ متاثرہ لوگ متعدد بیماروں سے بچا جاسکے۔اور ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ان کو کسی محفوظ مقام کو منتقل کیا جائے تاکہ مستقبل میں سیلاب کی وجہ سے اتنی بڑے پیمانے پر تباہی سے بچ سکے۔لوگوں نے یہ بھی شکایت کی کہ امدادی سرگرمیاں انتہائی سستی سے جاری ہیں۔

متعلقہ عنوان :

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں