چترال میں سیلابی ریلے نے تباہی مچادی ، 31 افراد جاں بحق ، درجنوں لاپتہ ہوگئے

مواصلات کا نظام درہم برہم ، کئی علاقوں کا راستہ منقطع ہونے سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات ،ضلع میں ایمرجنسی نافذ وزیر اعلی خیبر پختونخواسمیت عمران خان اوردیگر سیاسی رہنماؤں کا سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار

اتوار 3 جولائی 2016 11:53

چترال/پشاور/اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔03 جولائی ۔2016ء ) چترال میں ہونیوالی شدید بارشوں نے تباہی مچادی ،بارش سے سیلابی ریلے نے راستے میں آنے والی ہر شے کو تہس نہس کر دیا، سیلابی ریلے میں 31 سے زائد افراد بہہ کر جاں بحق ہوگئے جب کہ درجنوں مکانات ور دیگر املاک تباہ ہوگئیں ۔چترال کے علاقے ارسون میں دو گھنٹے تک جاری رہنے والی تیز بارش کے بعد آنے والا سیلابی ر یلا ایک مسجد، سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ سمیت متعدد مکانات کو بہا کر لے گیا۔

بارش سے سیلابی ریلے نے راستے میں آنے والی ہر شے کو تہس نہس کرکے رکھ دیا، سیلابی ریلے میں 31 سے زائد افراد بہہ کر جاں بحق ہوگئے جب کہ درجنوں مکانات، مساجد شہید اور دیگر املاک بھی تباہ ہوگئیں۔ ضلع ناظم مغفرت شاہ کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلے میں کم از کم 31 افراد بہہ کر جاں بحق ہوئے ہیں جن میں سے 10 افراد ایک مسجد میں عبادت میں مشغول تھے۔

(جاری ہے)

پاک فوج، چترال اسکاؤٹس، بارڈر پولیس اور چترال پولیس امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور اب تک 8 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلابی ریلے میں بہہ کر جاں بحق ہونے والوں کی شناخت ہو چکی ہے تاہم مزید ہلاکتوں کا بھی خدشہ ہے۔ ڈی پی او چترال آصف اقبال کا کہنا ہے کہ جنوبی چترال میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ، سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے 31 افراد لاپتہ ہیں جن میں 8 سیکیورٹی اہلکار، ایک خاتون اور4 بچے بھی شامل ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں شروع کردی گئی ہیں۔

ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ وڑائچ نے بتا یا ہے کہ سیلابی ریلوں میں 31 افراد کے لاپتہ ہوگئے ہیں جن میں سے آٹھ افراد کی لاشیں افغانستان کے علاقے سے ملی ہیں۔ اس سے قبل انھوں سے سیلابی ریلوں میں کم از کم 17 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ متاثرہ علاقے میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے اور متاثرین کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور اشیائے خورونوش فراہم کی جا رہی ہیں۔

علاقے میں میڈیکل کیمپ بھی لگایا جائے گا جبکہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی حالات نافذ کر دیے گئے ہیں جبکہ متاثرہ علاقے دور افتادہ ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں میں مشکلات بھی درپیش ہیں تاہم مقامی انتظامیہ کی جانب سے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ سیلابی ریلے سے سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ بھی بہہ گئی ہے جس میں موجود آٹھ اہلکار لا پتہ ہیں اور چار زخمی ہیں۔

سیلاب کے بعد آنے والے ریلے سے 50 سے 70 مکانات پانی میں بہہ گئے ہیں۔ علاقے میں مواصلات کا نظام درہم برہم ہو گیا اور کئی علاقوں کا راستہ منقطع ہونے کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پولیس اہلکار کے مطابق گاؤں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کی ہے جبکہ سیلاب میں بہہ جانے والے افراد کے تلاش جاری ہیں۔ ارسون گاؤں میں سیلابی ریلا مسجد میں داخل ہونے سے دس نمازی بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں جبکہ 20 نمازی زخمی ہوئے ہیں۔

دورش کے علاقے میں ایک مکان سیلابی ریلے میں بہہ جانے سے دو خواتین سمیت پانچ افراد تا حال لاپتہ ہیں ۔ مسلسل بارش اور سیلاب کے باعث انتظامیہ کی جانب سے ریڈ الرٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ سال بھی چترال میں بارشوں کے بعد سیلاب آیا تھا۔ جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے تھے اور املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ سیلاب کی وجہ سے کئی سڑکیں اور پل پانی میں بہہ گئے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے چترال میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کوامدادی کارروائیاں تیزکرنے کی ہدایت کر دی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ قدرتی آفت سے متاثرہ اور لاپتہ افراد کی تلاش ہرصورت ممکن بنائی جائے۔

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں