چترال میں مسلسل بارشوں کے باعث آنے والے سیلابی ریلوں میں30سے زیادہ افراد بہہ گئے‘7افراد کی لاشیں تلاش کرلی گئیں ‘ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی کا نفاذ کردیا گیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم اتوار 3 جولائی 2016 09:58

چترال میں مسلسل بارشوں کے باعث آنے والے سیلابی ریلوں میں30سے زیادہ افراد بہہ گئے‘7افراد کی لاشیں تلاش کرلی گئیں ‘ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی کا نفاذ کردیا گیا

چترال(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔3 جولائی۔2016ء)چترال کے علاقے ارسون میں ایک ہی دن کی طوفانی بارش نے تباہی مچا دی۔ بارش اور گلیشیئر پگھلنے سے بننے والا آبی ریلہ 37مکانات اور مسجد ساتھ بہا لے گیا۔48مکانات کو جزوی نقصانات ہوا۔ریلے میں 31 افراد بہہ گئے، 7 کی لاشیں نکال لی گئیں۔پی ڈی ایم اے نے متاثرین کی مدد کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سے ہیلی کاپٹرمانگ لیا۔

وزیراعظم کا متاثرہ علاقوں میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کےلیے امدادی کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت کردی ہے،خیبرپختونخوا حکومت ہلاک افراد کے لواحقین کو فی کس تین ،تین لاکھ روپے دے گی۔ چترال میں سیلابی ریلے سے ہونے والی تباہ کاری کی مزید تفصیلات سامنے آرہی ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلابی ریلے سے چترال میں 37 گھر مکمل تباہ ہوئے، جب کہ 48 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

(جاری ہے)

ڈپٹی کمشنر چترال کے مطابق اب تک کی اطلاعات کے مطابق چترال میں حالیہ سیلابی ریلے سے چترال کے علاقے ارسون میں 37 گھر مکمل تباہ ہوئے، جب کہ 48 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے، جب کہ سیلابی ریلے سے ایک آرمی چیک پوسٹ تباہ اور مسجد شہید ہوئی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلے میں 31 افراد بہہ گئے ہیں، جن میں سے 7 کی لاشیں افغانستان کی حدود تاڑے سے مل گئی ہیں، باقی افراد کی تلاش کا کام جاری ہے۔

حکام کے مطابق سیلاب سے متاثرہ 50 خاندانوں کو ریلیف کا سامان پہنچادیا گیا ہے۔ جس میں ٹینٹ، کمبل، اور خوراک شامل ہیں، حکام کا کہنا ہے کہ مزید خاندانوں کو بھی امدادی سامان بھجوایا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے این ڈی ایم اے سمیت وفاقی امدادی اداروں کو ہدات کی ہے کہ چترال کے سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کی کارروائیاں تیز کی جائیں۔

وزیر اعظم نواز شریف نے چترال کے علاقے ارسون میں نماز تراویح کی ادائیگی کے دوران سیلابی ریلے سے قیمتی جانوں کے ضیاع اور گھروں کو پہنچنے والے نقصانات پر افسوس کا اظہار کیا۔وزیر اعظم نے این ڈی ایم اے سمیت وفاقی امدادی اداروں کو متاثرہ علاقوں میں پھنسے اور سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے افراد کے لیے امدادی کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت کی۔

وزیر اعظم نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی انہیں صورتحال سے مسلسل آگاہ رکھا جائے۔ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ وڑائچ نے بتایا کہ سیلابی ریلوں میں 30سے زیادہ افراد کے لاپتہ ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 18افراد مختلف واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں۔ انھوں نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔اسامہ وڑائچ نے بتایا کہ متاثرہ علاقے میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے اور متاثرین کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور اشیائے خورونوش فراہم کی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی حالات نافذ کر دیے گئے ہیں جبکہ متاثرہ علاقے دور افتادہ ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں میں مشکلات بھی درپیش ہیں تاہم مقامی انتظامیہ کی جانب سے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ سیلابی ریلے سے سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ بھی بہہ گئی ہے جس میں موجود8 اہلکار لا پتہ ہیں اور چار زخمی ہیں۔

این ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب کے بعد آنے والے ریلے سے 50 سے 70 مکانات پانی میں بہہ گئے ہیں۔ علاقے میں مواصلات کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے اور کئی علاقوں کا راستہ منقطع ہونے کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گاو¿ں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کی ہے جبکہ سیلاب میں بہہ جانے والے افراد کے تلاش جاری ہے - ارسون گاوں میں سیلابی ریلا مسجد میں داخل ہونے سے دس نمازی بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں جبکہ 20 نمازی زخمی ہوئے ہیں۔

دورش کے علاقے میں ایک مکان سیلابی ریلے میں بہہ جانے سے دو خواتین سمیت پانچ افراد تا حال لاپتہ ہے۔چترال کے ضلعی ناظم مغفرت شاہ نے بتایا کہ سیلاب رات10 بجے کے قریب آیا جس میں متعدد افراد کی ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔انھوں نے بتایا کہ لوگ اپنے مدد اپ کے تحت امدادی کاروائیوں میں مصروف ہے۔ بارشوں کی وجہ سے راستے بند ہو گئے ہیں۔چترال کا یہ دور افتادہ علاقہ ہے اور رات کے وقت آنے والے سیلاب کے امدادی کاروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا کہ مسلسل بارش کے باعث ندی نالوں میں طغیانی آ گئی ہے۔ان دونوں گرمی کے موسم میں پہاڑوں کی برف پگھلنے سے بھی ندی نالوں میں پانی کا بہاو بڑھ جاتا ہے۔مسلسل بارش اور سیلاب کے باعث انتظامیہ کی جانب سے ریڈ الرٹ بھی جاری کیا گیا ہے-

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں