چترال کے بالائی علاقے شاہ گروم کے سیلاب متاثرین تاحال حکومتی امداد کے منتظر

جمعہ 13 نومبر 2015 17:00

چترال(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔13 نومبر۔2015ء) چترال کے انتہائی شمال میں بالائی علاقے شاہ گروم وادی کے مکین جولائی سے ستمبر تک سیلاب کی وجہ سے بر ی طرح متاثر ہوئے مگر ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی حاص امداد نہیں ہوا۔علاقے کے سماجی کارکن عبد الصمد کا کہنا ہے کہ یہاں تین ماہ تک راستے بند رہے اور آشیائے خوردنوش کی شدید قلعت پڑگئی لوگوں کے پاس ایک کلو آٹا تک نہیں بچا۔

بجلی تو اس علاقے میں ابھی تک سرکار نے دیا ہی نہیں لوگ اپنے گندم کو پن چکی سے پیستے تھے مگر سیلاب کی وجہ سے ندی نالیاں بھی بہہ گئی جس کے نتیجے میں پانی سے چلنے والے یہ چکیاں بھی تباہ ہوئی۔ جبکہ علاقے میں ڈیزل کی رسد کی بندش سے ڈیزل انجن سے چلنے والے مشینی چکی بھی کام نہیں کرتی تھی اسلئے لوگ فاقہ کشی کے شکار ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا ہے کہ زلزلے سے بھی یہاں نقصان ہوا ہے مگر حکومت نے ابھی تک سیلاب متاثرین کے ساتھ وہ امداد نہیں کیا جتنا کرنا چاہئے تھا۔

اس علاقے میں کئی سال پہلے سو میگا واٹ سے زیادہ پن بجلی گھر کا Feasibility رپورٹ تیار ہوا تھا مگر ابھی تک اس پر بھی عملی کام شروع نہیں ہوا اور اس جدید دور میں بھی یہاں کے لوگ اندھیروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک مقامی خاتون نصرت بی بی کا کہنا ہے کہ اس وادی میں لڑکیوں کیلئے پرائمری سکول تک نہیں ہے اور ہماری بچیاں پندرہ کلومیٹر دور جاکر لڑکوں کے ساتھ محلوط تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

جبکہ صحت کی بھی کوئی حاص سہولیات یہاں میسر نہیں ہیں۔ زچگی یا شدید بیماری کی صورت میں خواتین کو چارپائی پر ڈال کر محتلف پگڈنڈیوں سے گزار تے ہوئے کچے سڑک تک پہنچایا جاتا ہے جہاں سے ان کو اس حطرناک راستے سے بونی یا چترال ہسپتال لے جایا جاتی ہے مگر اکثر خواتین ہسپتال پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں دم توڑتی ہے کیونکہ سڑک انتہائی حراب ہے۔

یہ علاقہ ماضی میں بین الاقوامی سیاحوں اور کوہ پیماؤں کا توجہ کا مرکز تھا کیونکہ پچیس ہزار فٹ بلندی کے حامل تریچ میر پہاڑی کا راستہ یہاں سے جاتا ہے مگر 9/11 کے بعد اب غیر ملکی کوہ پیما بھی نہیں آتے جس سے علاقے کے معیشت پر نہایت برے اثرات پڑے ہیں۔ مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں کے باشندوں کو بھی بنیادی شہری حقوق اور جدید سہولیات فراہم کی جائے تاکہ یہ لوگ بھی اس جدید دور میں اندھیروں کی بجائے روشنی میں زندگی گزار سکے اور لوگوں کو صحت و تعلیم کی سہولیات بھی فراہم کی جائے۔

متعلقہ عنوان :

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں