چترال میں ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ نے محققین کیلئے نیا باب کھول دیا

اتوار 10 مئی 2015 17:09

چترال میں ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ نے محققین کیلئے نیا باب کھول دیا

چترال(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 10 مئی۔2015ء) چترال کے مختلف مقامات پر ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ کے نوادرات، اجتماعی قبریں دریافت ہونے سے تاریح کے محقیقین کیلئے ایک نیا باب کھل چکا ہے۔ سینگور کے گان کورینی کے مقام پر آرین قوم کی قبریں کھدائی کے دوران نکل چکی ہیں۔ عبدالحمید جو ہزارہ یونیورسٹی میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر ہے کا کہنا ہے کہ یہ آرین اور انڈین آرین قوم کی قبریں ہیں ان کی مذہبی رسومات کے مطابق مرد حضرات کے ساتھ قبر میں ان کی متعلقہ چیزیں بھی رکھ دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ آرین قوم پہلے باجوڑ، سوات، مہمند ایجنسی آئے تھے اس کے بعد چترال آئے۔ انہوں نے اس کھدائی کے بعد تاریح میں ایک نیا باب کھول دیا۔ انہوں نے کہا کہ کیلاش قوم کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سکندر اعظم کی اولاد ہے مگر سائنسی تحقیق اور ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہوا ہے کہ کیلاش سکندر اعظم کا اولاد نہیں ہے اور وہ بھی آرین تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 2005 میں سینگور میں کھدائی شروع کروایا تھا جس میں ہمارے ساتھ بیرونی محقیقین بھی تھے۔ اطالوی محققین نے سوات میں جو کھدائی کی تھی اور چترال کے ساتھ ان کی بڑی ربط پایا گیاآرین لوگ بھی اپنے خواتین کی میت پر ان کی قبر میں ان کی کپڑے ، زیورات دفناتے تھے اور مرد کے ساتھ ان کی روزمرہ استعمال کی چیزیں دفناتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر احسان اللہ ، پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانش اور دیگر محقیقین نے بھی اس پر تحقیق کیا۔

1972 کے بعد اس سلسلے میں کافی کام ہوا اور یہ قبریں بارہ سو سال پہلے کی لگتی ہیں مگر بعض قبریں ہزاروں سال پرانی لگتی ہیں جس میں کئی اشم کی قبریں ہیں۔ سنگل قبریں ، ڈبل قبریں، اجتماعی قبریں بعض قبروں میں ایک مردہ دفنایا گیا ہے بعض میں دو اور بعض میں دو سے زیادہ میتوں کو دفنایا گیا ہے۔انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ اس وقت میت کو ابال کر ان کی ہڈی کو کسی مٹی کے مرتبان میں رکھ کر دفناتے تھے اور یہاں کئی قسم کی ایسی قبریں بھی دریافت ہوئی ہیں۔

تاہم ہزارہ یونیورسٹی کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ اور سٹاف نے ان ہڈیوں کو یہاں سے نکال کر مزید تحقیق کیلئے یونیورسٹی لے گئے ۔ان کھدائی سے یہ بات ثابت ہوئی کہ تاریح اور آثار کے حوالے سے چترال کی دامن نہایت وسیع اور ذرحیز ہے یہاں سینگور اور شالی کے مقام پر اب ایسے پہاڑی ہیں جن میں ہزاروں سال پرانی آثار نظر آتے ہیں۔ان اثاثہ جات کو محفوظ کرنے کیلئے چترال میں ایک میوزیم (عجایب گھر) بھی تعمیر کیا گیا ہے جن میں کیلاش اور دیگر قوموں کی تاریحی ورثہ کو محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہیں ۔ مگر اس بابت مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہاں تاریح کا یہ چھپا ہوا خزانہ عیاں ہوکر محقیقین اور تاریح کے طلباء کیلئے معلومات کا باعث بن سکے۔

چترال میں شائع ہونے والی مزید خبریں