ویمن سیفٹی آڈٹ ان پبلک ٹرانسپورٹ

پاکستان بھرمیں خواتین کی ایک بڑی تعدا دآمدو رفت کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتی ہے جس کے لئے انہیں کئی طرح کے مسائل کا بھی سامنا بھی رہتا ہے۔

پیر 15 جنوری 2018

Women Sefty Audit In Public Transport
عنبرین فاطمہ:
پاکستان بھرمیں خواتین کی ایک بڑی تعدا دآمدو رفت کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتی ہے جس کے لئے انہیں کئی طرح کے مسائل کا بھی سامنا بھی رہتا ہے۔ سنجیدہ نوعیت کے یہ مسائل نہایت ہی توجہ طلب ہیں۔انہیں کبھی اس طرح سے ہائی لائٹ نہیں کیا گیا جس طرح سے کیا جانا چاہیے ،حال ہی میں عورت فاوٴنڈیشن،محکمہ ویمن ڈویلپمنٹ حکومت پنجاب اور یو این ویمن کے مالی تعاون سے ایک رپورٹ تیار کی گئی جس میں 903خواتین اورلڑکیوں کے ساتھ ساتھ 100بس کنڈیکٹرز اور ڈرائیورز کو انٹرویو کیا گیا۔

اپنی نوعیت کی اس رپورٹ کو مرتب کرنے میں سٹریٹجک پارٹنرز پنجاب کمیشن آن دا سٹیٹس آف ویمن اور سیف سٹی اتھارٹی تھے۔پاکستان میں اس سے قبل ایسی کوئی رپورٹ تیار نہیں کی گئی جس میں پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کرنے والی خواتین اور بچیوں سے سفر کے دوران ہراسمنٹ ،سیفٹی اور سیکیورٹی کے حوالے سے انٹرویو کرکے ان ایشوز کو ہائی لائٹ کیا گیا ہو۔

(جاری ہے)

اس رپورٹ میں خواتین اور بچیوں کو انٹرویو کرنے کے بعد بہت ساری سفارشات اور تجاویزسامنے آئیں جیسے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والی خواتین کے صنفی حوالے سے کسی بھی سطح پر اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی اور میٹرو کے پاس ایساکوئی ڈیٹا نہیں کہ جو یہ بتا سکے کہ کتنے مرد اور عورتیں بسوں میں سفر کرتی ہیں۔میٹرو کے ہر بس سٹاپ پر کیمرے موجود ہیں لیکن ایل ٹی سی کے کسی سٹاپ پر سیکیورٹی کیمرے ہیں اور کسی سٹاپ پر نہیں اور جہاں جہاں کیمرے ہیں وہ خواتین کو تحفظ فراہم نہیں کر پارہے ہیں یہاں تک کہ ان بسوں کے اندر بھی کیمرے نہیں ہیں۔

بس سٹاپ پر عورتوں کی مخصوص ضروریات کے حوالے سے سہولیات میسر نہیں ہیں مثال کے طور پر عورتوں نے اپنے بچوں کو فِیڈ کروانا ہے تو ان کے پاس الگ سے بیٹھنے کی جگہ نہیں ،واش رومز تک نہیں ،پانی کے کولر نہیں ،بپلک بوتھ تک موجود نہیں ہیں کہ اگر کسی خاتون تو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو وہ کہیں اپنی شکایت درج کروا سکے۔معذور خواتین کے لئے مخصوص سیٹیں نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے لئے بیٹھنے کا انتظام ہے۔

اسی طرح سے ایل ٹی سی کے بہت سارے بس سٹاپس پر چھت نہیں ہے صرف ایک کھمبہ لگا کر بتا دیا جاتا ہے کہ یہ بس سٹاپ ہے۔سفرتو ہر ایک نے کرنا ہوتا ہے ٹرانس جینڈرز کو اس حوالے سے بہت سارے مسائل کا سامنا ہے جیسے اگر یہ کسی بس پر چڑھ جاتے ہیں تو مردوں کی سائیڈ پر جائیں تو وہ ان کو ہراساں کرتے ہیں یا چھیٹر چھاڑ کرتے ہیں وہاں سے گھبرا کر عورتوں کی سائیڈ پر جائیں تو وہ خوفزدہ ہو جاتی ہیں،یوں اس کمیونٹی کے لئے سفر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

انٹرویو کے دوران پتہ چلا کہ اس کمیونٹی کے بہت سارے لوگوں نے بسوں پر سفر کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ LTCاور میٹرو کے فری کارڈز کا استعمال 79% خواتین کرتی ہی نہیں ہیں نہ ہی ان کو جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت ہے ،انٹرویو کے دوران پتہ چلا کہ خواتین ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے سے گھبراتی ہیں۔ 82%خواتین نے کہا کہ ہمیں LTCاور میٹرو کے بس سٹاپ پر ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان میں زیادہ تعداد ایل ٹی سی پر سفر کرنے والی خواتین کی تھی۔ 20سے 29 سال تک کی بچیوں نے کہا کہ ہمیں ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم جب اپنے تعلیمی اداروں میں جانے یا گھر واپس جانے کے لئے بس سٹاپ پر کھڑی ہوتی ہیں تو وہاں ہمیں مرد حضرات نہ صرف گھورتے ہیں بلکہ آوازیں بھی کستے ہیں اور بعض اوقات قریب سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم اس قسم کی شکایات گھر میں لگا ئیں تو یقینا وہ ہمارا گھر سے باہر نکلنا اور پڑھنا یا ملازمت کرنا بند کردیں گے۔

اس لئے ہمیں ہراسمنٹ کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ 90%عورتوں کا کہنا تھا کہ بسوں کے اندر ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورLTCمیں یہ ریشو ہائی ہے ،62%خواتین نے کہا کہ مسافر ہراساں کرتے ہیں۔98%خواتین نے کہا کہ ہمیں تو میٹرو اور ایل ٹی سی کے موبائل ایپ،ایمرجنسی نمبر ز اور ہیلپ لائن نمبرز ہی نہیں معلوم ہیں اور یہ بھی نہیں پتہ کہ اگر ہمیں کوئی مسئلہ ہو تو اس کی شکایت کہاں کرنی ہے۔

حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز کو بھی ہیلپ لائن کے بارے میں واقفیت نہ تھی۔94%خواتین کوپتہ ہی نہیں تھا کہ خواتین کے تحفظ کے لئے قوانین بھی موجود ہیں ،کچھ خواتین کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی مسئلہ ہو تو ہم 1122پر رابطہ کرتی ہیں ،اگر ہم ہراسمنٹ کی شکایت ڈرائیور یا کنڈیکٹر سے کرتی ہیں تو وہ نظر انداز کردیتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ بی بی یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے آپ کا ہے آپ ہی نمٹیں۔

بہت ساری خواتین کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ ہراسمنٹ کی صورت میں پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 509 کے تحت شکایت درج کروا سکتی ہیں۔99% گھریلو عورتیں اپنے بچوں کیساتھ سفر کرتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ کیسے ڈِیل کریں اگر ہم گھروں میں بتائیں گی تو پھر ہمارے باہر جانے آنے میں مشکل ہو گی جو کام ہم آسانی سے خود کر سکتی ہیں انہیں بھی نہیں کرنے دیا جائیگا ،اور ویسے بھی ہمارے پاس پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چوائس ہے ہی نہیں۔

ان انٹرویو ز کے دوران یہ بھی شکایات سننے کو ملیں ،خواتین اور لڑکیوں کا کہنا تھا کہ میٹرو کے بس سٹاپ تو ٹھیک ہیں وہاں روشنی بھی ہوتی ہے لیکن یہاں سے گزر کر جب ہم باہر نکلتے ہیں تو وہاں اندھیرا ہوتا ہے یوں ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔12%عورتوں نے کہا کہ کچھ بس سٹاپ ایسے ہیں کہ وہاں پراندھیرا ہوتا ہے اور نشئی ،چوروں کی ایک بڑی تعداد اردگرد گھوم رہی ہوتی ہے ایسے میں خاصا ڈر لگتا ہے کہیں کوئی اغواء نہ کرلے یا پرس نہ چھین لے ،رات کو جب ہم ڈبل شفٹ کر کے گھر آتی ہیں تو بہت زیادہ خوف آتا ہے۔

ان خواتین کو انٹرویوز کرنے کے بعدویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ اور محکمہ ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کو تجاویز دی گئیں۔ ان سے کہا گیا کہ کتنے خواتین و مرد حضرات سفر کرتے ہیں صنفی حوالے سے اعداد و شمار جمع کئے جائیں ،بس سٹاپوں کا انفراسٹرکچر ویمن فرینڈلی بنایا جانا چاہیے۔کارڈ سسٹم کو ایفیکٹیو بنایا جانا چاہیے۔عورتوں کے لئے سیٹیں بڑھائی جائیں۔

کوٹ لکھپت ،جلو موڑ،مغلپورہ جیسے علاقوں کے بس سٹاپوں سے کالج کی لڑکیاں اور ملازمت کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد سفر کرتی ہے لہذا بسوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ڈرائیور اور کنڈیکٹرز کی لازمی ٹریننگ ہونی چاہیے۔ٹرانس جینڈرز کے لئے بھی سیٹیں ہونی چاہیے ،بوڑھے معذور لوگ اور حاملہ خواتین کے لئے بھی سیٹوں کا مناسب انتظام ہونا چاہیے۔

پولیس کو ٹریننگ دی جائے ،رات کے وقت بس سٹاپوں کے ارد گرد پولیس گشت کو بڑھایا جانا چاہیے۔ ٹرانسپورٹ پالیسی کا تجزیہ کرکے اس کے مطابق ایکشن لیا جانا چاہیے۔لوکل گورنمنٹ سسٹم کا ایفیکیٹیو استعمال کریں اور پروٹیکشن کمیٹیاں بنائی جائیں، ویمن پروٹیکشن کمیٹی بنائی جائیں تاکہ وہ بس سٹاپوں پر مانیٹرنگ کریں اور مسائل حل کریں ،پبلک پلیسز پر ہراسمنٹ کے بارے میں آگاہی کے لئے بورڈ ز لگائے جائیں۔ 509کی اناوٴسمنٹ بسوں میں بار بار کی جائے۔ہراسمنٹ کے کوڈ آف کنڈکٹ اداروں اور بس سٹاپوں پر لگائے جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Women Sefty Audit In Public Transport is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.