وزیرستان اور حکومت پاکستان

سوال یہ ہے کہ 2004ئکے بعد آخر ایسے کونسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ جس کے بعد سے قبائی گمراہ ہوتے گئے اور وہ غیروں کے شکنجے میں جکڑتے چلے گئے

جمعہ 10 نومبر 2017

Wazirastan Or Hkomat Pakistan
اسد اللہ خان وزیر:
ایک پہاڑ کے دامن میں ایک ہنستا مسکراتا گھر بس رہا تھا جس کی رونق چار معصوم اور ننھی جانوں سے تھی۔ والدین اپنے تین لاڈلوں کو آنکھ کا تارا اور جگر کا ٹکڑا سمجھ کر سینے سے لگائے رکھتے، مگر چھوتے کے ساتھ رویہ کچھ مختلف تھا ، تین لاڈلے ان کی ہر بات پر سرجھکاتے اور حکم بجالاتے تھے مگر چوتھے بیٹے کا قصہ کچھ مختلف تھا.. وہ باقی تینوں کی طرح ہر بات کو آنکھیں بند کر کے قبول نہ کرتا اور ہر معاملے میں ذرا نخرے سے کام لیتا۔

رفتہ رفتہ والدین اپنے اس ضدی بیٹے سے بے زار ہوتے گئے۔اسے اپنے پیار کا وہ حصہ نہ مل سکا جسکا وہ حقدار تھا۔احساس کمتری نے اس کے دل میں جگہ بنا لیاور شورشوں نے اس کے سینے میں پنجھے گاڑ لئے۔

(جاری ہے)

یہی حکایت حکومت پاکستان کی بھی ہے جس نے اپنے مضبوط،بہادر اور کچھ ضدی قبائیلی بیٹوں سے منہ پھیر لیا اور انھیں غیروں کا ہدف بننے کے لیئے تنہا چھوڑ دیا..اب وزیرستان کے حالات کافی بہتر ہوگئے ہیں! میرانشاہ جاتے ہوئے ساتھی صحافی نے بات شروع کی۔

۔ "بالکل ایسا ہی ہے" میں نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ضرب عضب آپریشن کے بعد پاک فوج کی کوششوں سے وزیر ستان میں کسی قدر امن آچکا ہے۔ یہ تو ہے کہ آپ بے خوف گھوم پھر سکتے ہیں ،مگر جن سماجی مسائل نے جنم لیا ہے وہ اتنے ہیں کہ بیان کرنے کیلئے الفاظ کم پڑجائے گے۔ میرانشاہ میں داخل ہوتے وقت انٹری کرانے کیلئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سکیورٹی چیکنگ اتنی سخت ہے کہ کسی غیر کا وزیرستان میں داخل ہونا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

جب میں شمالی وزیرستان کے گورنر ماڈل سکول پہنچا تو میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ سکول بہت حسین اور متعدد سہولیات سے آراستہ ہے تقریباََ گیارہ سو (1100 )سے ذائد طالب علم کی روشنی سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ میری خوشی دیدنی ہوگئی جب میرانشاہیڈ کواٹر میں داخل ہوا۔ ایسا ہسپتال تو میں نے بڑے بڑے شہروں میں بھی نہیں دیکھا ،جدید مشینری کے ساتھ مریضوں کے لیے آرام دہ ماحول تھا۔

خواتین کے لیے ایک لیڈی ڈاکٹر تمام تر ذمہ داریاں سر انجام دے رہی تھیں، اس وقت ساری خوشی پر پانی پھر گیا جب مجھے معلوم ہوا کہ گورنر ماڈل سکول اور میرانشاہ ہیڈ کواٹر ہسپتال کے علاوہ عام لوگوں کیلئے اس طرح کی کوئی سرکاری ونجی سہولت میسر نہیں۔ اب کچھ بات کرتے ہیں مسائل کی، متاثرین وزیرستان اب بھی اپنے گھروں میں واپس نہیں پہنچے جبکہ میڈیا اور دفتری ریکارڈ کے مطابق 80 فیصد تک متاثرین وزیرستان اپنے گھرواپس لوٹ چکے ہیں۔

حکومت کی غلط بیانیوں کے پردے چاک ہورہے ہیں اور اس کا ذندہ ثبوت یہ ہے کہ میر علی اور میرانشاہ تک وہ لوگوں کی آبادی اور پہلے جیسی چہل پہل نظر نہیں آتی۔ جو گھر مسمار ہوئے ان کی تعمیر ایک طرف،حسرت تعمیر رکھنے والا بھی کوئی نہیں۔ آج بھی ( IDPS ) دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ قبائلیوں نے دہشت گردوں کا ساتھ دیا اور ان کی شکل و صورت دہشت گردوں سے ملتی جلتی ہیں ہے یہ بات کچھ حد تک ٹھیک ہے کہ چند قبائلوں نے دہشت گردوں کے ساتھ ہمدردی دکھائی لیکن سوال یہ ہے کہ 2004ئکے بعد آخر ایسے کونسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ جس کے بعد سے قبائی گمراہ ہوتے گئے اور وہ غیروں کے شکنجے میں جکڑتے چلے گئے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر ریاست قبائلیوں کو تعلیم سے محروم نہ کرتی، ان کو باقی شہریوں جیسے حقوق دیتی تو کیا ایسے حالات پیدا ہوسکتے تھے؟؟؟ رہی بات یہ کہ قبائلیوں کی شکل و صورت شدت پسندوں سے ملتی ہیں تو جناب صورتوں کا ملنا ایسا کوئی جواز نہیں ہے ان کے مشترکہ لباس کی بات کی جائے یہ تو قبائیلیوں کے صدیوں پرانی ثقافت کا حصہ ہے۔ اب بھی وزیرستان کے لوگ بے شمار مسائل اور تکالیف سے دوچار ہورہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کم از کم ان کی قربانیوں کے بدلے میں کیے ہوئے وعدے تو وفا کرے۔ ہمیں اگر واقعی جدید ریاست اور ترقی یافتہ سماج قائم کرنا ہے تو ہمیں اپنے اصولوں، ضابطوں اور نظریات کا جائزہ لینا ہوگا خوشحال پاکستان کیلئے ترقی یافتہ اور FCR سے پاک وزیرستان ناگزیر ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Wazirastan Or Hkomat Pakistan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.