وزیر اعظم سیاسی اننگز جارحانہ انداز میں کھیلنے میں مصروف
انتخابی میدان میں شکست خوردہ قوتیں نا اہلی کی اُمید لگائے بیٹھی ہیں
ہفتہ 17 جون 2017
بالآخر سپریم کورٹ کی پانامہ کیس کی تحقیقات کیلئے قائم کردہ 6 رکنی”جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم“بھی متنازعہ ہو گئی،اس کمیٹی کے بعض ارکان کے طرز عمل کے بعد اس کی غیر جانبداریت بارے سوالات اٹھنے لگے ہیں،طارق شفیع اور جاوید کیانی کی جانب سے جے آئی ٹی کے بعض ارکان کی طرف سے ان پر ڈالنے جانے والے دباؤ کے بارے میں انکشافات کے بعد مسلم لیگی رہنماؤں کی طرف مسلسل جے آئی ٹی پر تنقید کی جارہی ہے۔وزیراعظم نواز شریف کے دونوں صاحبزادوں حس و حسین جس طرح گھنٹوں پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔اس سے لیگی کارکنوں میں بے چینی واضطراب کی لہر دوڑرہی ہے،مسلم لیگی قیادت جو جے آئی ٹی کی تشکیل کے وقت خاموش تھی لیکن وہ مصدقہ شواہد ملنے کے بعد کمیٹی کے بعض ارکان کی
”وٹس ایپ“ کے ذریعے نامزدگی کو سپریم کورٹ میں چلینج کر چکی ہے۔
(جاری ہے)
اب جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے موقع پر تصویر لیک ہونے کا معاملہ بھی سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے،تاحال جے آئی ٹی حسن اور حسین نواز سے تحقیقات کر رہی ہے،جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے ایک ماہ کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے،جس کا پہلا حصہ عام کرنے جبکہ دوسرا خفیہ رکھنے کی ہدایت کی گئی سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے پر جے آئی ٹی سے جواب طلب کرلیا ہے جبکہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقات میں مشکلات کی شکایت پر خصوصی بینچ نے با ضابطہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کردی ہے،ٹیم کے سربراہ واجد ضیا نے اپنی رپورٹ عدالت عظمی میں پیش کی تو حسین نواز کے وکیل نے اپنے موکل کی تصویر لیک ہونے سے متعلق متفرق درخواست پیش کی اور تحقیقات کے لئے جوڈیشنل کمیشن بنانے کی استدعا کی ،اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ویڈیو لیک نہیں ہوئی وہ سکرین شاٹ تھا جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر تحقیقات کی ضرورت محسوس ہوئی تودیکھیں گے فی الحال جے آئی ٹی سے جواب مانگ رہے ہیں۔
تین رکنی بنچ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیکر اس پر مشاورت کے بعد قرار دیا کہ تحقیقات درست سمت جارہی ہے،رپورٹ کے پہلے حصے میں جے آئی ٹی نے اپنے مسائل بیان کئے تھے،جس پر ججز نے رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد مشاورت کی اور کہا کہ جے آئی ٹی سربراہ درپیش مسائل کے متعلق درخواست دائر کریں،اس اٹارنی جنرل کو ہدایات جاری کردی جائیں گی،جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ امید ہے جے آئی ٹی مقررہ وقت میں کام مکمل کرے گی۔ہم مزید ایک دن بھی جے آئی ٹی کو نہیں دے سکتے ہیں،ٹائم فریم کسی صورت میں تبدیل نہیں کرینگے،جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات درست سمت میں جارہی ہے،جس کے بعد ججز نے عدالت میں پیش رپورٹ کو دوبارہ سیل کردیا اور جے آئی ٹی رپورٹ رجسٹرار آفس میں جمع کرانے کی ہدایت کردی،حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ ہماری درخواست کی جلد از جلد سماعت کی جائے۔ہماری درخواست وڈیو ریکارڈنگ سے متعلق ہے اور ایسا دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔جس کے بعد حسین نوزا کی درخواست پر سماعت 12 جون تک کیلئے ملتوی کردی گئی،جب تک یہ سطور شائع ہوں گی اس وقت اس بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آجائے گا۔قبل اسکے کہ جے آئی ٹی کسی نتیجہ پر پہنچے اس کی ”کریڈ بلٹی“ کے بارے میں سیاسی حلقوں میں سوالات اٹھ رہے ہیں،ایسا دکھائی دیتا ہے اگر ٹیم نے وزیراعظم نواز شریف یا انکے صاحبزادوں کیخلاف رپورٹ دی تو مسلم لیگ (ن) اسے تسلیم نہیں کرے گی۔قطر ی شہزادے کا دوسرا خط بھی آگیا ہے،ابھی تک اسکے مندرجات منظر عام پر نہیں آئے لیکن قیاس آرائیاں ہورہی ہیں،سردست قطری شہزادے نے پاکستان آنے سے معذوری کا اظہار کیا ہے۔تاہم اُنہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پہلا خط بھی انہوں نے ہی لکھا ہے،لیگی حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے۔ کہ قطری شہزادہ سکائپ کے ذریعے یا قطر میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوجائیں گے،ممکن ہے ان کو مزید تحقیقات کیلئے پھر طلب کیا جائے،حسین نواز کی تذلیل پر مسلم لیگی حلقوں میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے،حسین نواز نے سپریم کورٹ سے جج کی سربراہی میں کمشن قائم کرنے کی استدعا کر رکھی ہے،جے آئی ٹی کے انتخاب اور سیاسی وابستگیوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت آچکا ہے۔یہ الگ بات ہے سپریم کورٹ نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بارے اعتراضات کو قابل درخور اعتنا نہیں سمجھا،اب تو سیاسی تجزیہ کا ر بھی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے بعض اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم نواز شریف سیاسی مخالفین برملا یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کی حکومت دانستہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہی ہے،صورتحال کی خرابی کا باعث سینیٹر نہال ہاشمی کی ”متنازعہ“ تقریر بنی جس نے پورے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کردی،وزیراعظم نواز شریف نے انہیں ”سیاسی جرم“کی سزا یہ دی کہ ان سے استعفی نہ صرف نا منطورکردیا بلکہ ان کو اسعفی واپس لینے کا موقع بھی فراہم کر دیا چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی سینیٹر نہال ہاشمی کی پشت پر کھڑے ہو گئے اور ان کا استعفی واپس لینے کا موقع فراہم کیا چیئر مین سینٹ اس مشکل وقت میں نہال ہاشمی کے ساتھ ایسے کھڑے ہیںجب ایم کیوایم کے ارکان نے اجتماعی استعفے دے دئیے لیکن انہوں نے منظور نہیں کئے انہوں نے رولنگ دی ہے کہ دباؤ میں دیا گیا سینیٹر نہال ہاشمی کا استعفی قبول نہیں کر سکتا۔
وزیر اعظم نواز شریف موجودہ صورتحال میں پریشان دکھائی نہیں دے رہے وہ اپنی”سیاسی زندگی“کی مشکل ترین اننگز جارحانہ اندا ز میں کھیل رہے ہیں۔انتخابی میدان میں مسلسل شکست کھانے والی قوتیں وزیر اعظم نواز شریف کی ”عدالتی“ فیصلے سے ”نااہلی“ کی اُمیدیں لگائے بیٹھی ہیں،آئندہ صورتحال واضح ہوجائے گی کہ ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Wazir e Azam Siyasi Inning Jarhana Andaz Main Khailnay Main Masroof is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 June 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.