ٹرمپ کی افغان پالیسی میں خونریزی کا واضح پیغام!

ایشیاء میں چین کا بڑھتا اثرورسوخ ، امریکہ کا بھارت کی طرف جھکاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود مختاری کا دفاع کرنے والے ممالک کیلئے اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا مجبوری بن گیا

ہفتہ 28 اکتوبر 2017

Trump Ki Afghan Palice Me Khonn rezzi
محبوب احمد :
عالمی افق پر اقتدار کے حصول کے لئے جو نت نئے حربے استعمال کئے جارہے ہیں اس سے دنیا خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جو نام نہاد جنگ شروع کی تھی اس سے بھڑکنے والی آگ نے آج پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ مغربی ممالک کے ہاتھوں ایشیائی اور افریقی ممالک کے عوام کا استحصال صدیوں سے جاری ہے۔

عراق ، شام بوسنیا، چیچینا، برما، مصر، یمن، ترکی،اور دیگر ممالک کے بعد افغانستان میں حالات دن بدن کیوں خراب ہوتے جارہے ہیں اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو امریکی صدر کی افغان پالیسی سے پرتشدد وتنازعات اور خونریزی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا دیکھا دے رہا ہے ۔

(جاری ہے)

کیو کہ ٹرمپ کی نئی پالیسی میں افغانستان اور خطے کے لئے امن اور امید کا کوئی پیغام نہیں ہے، سابق صدر افغانستان حامد کرزئی نے امریکہ کی نئی افغان پالیسی پر کھل کر جو تنقید کی ہے اس سے بھی خطے میں حالات کی سنگینی کا خاطر خواہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایشیاء شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے اند ر موجودہ وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے انسانی حقوق کے بڑے علمبردار امریکہ نے کوئی کسر نہیں چھوٹی اور اس کام کو انجام دینے کے لئے اسرائیل صف اول میں اس کے ساتھ موجود ہے امریکہ نے 2001 ء سے لے کر 2013ء تک تقریباََ 641 ارب ڈالر دفاع پرخرچ کئے جبکہ پوری دنیا میں سال 2011ء تک فوجی اخراجات کی مد میں 1.63 کھرب ڈالر خرچ کئے گئے ہیں۔

بھارت کے دفاع پر اٹھنے والے کل اخراجات کا 2.8 فیصد بنتے ہیں ۔ا مریکہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے شطرنج کی جو بساط بچھائی تھی آج اس میں بری طرح پھنس چکا ہے، یہ امریکی پالیسیاں ہی ہیں کہ جن سے بیزار ہوکر یورپ کے چھوٹے مگر پرامن اور خوبصورت ممالک جنہیں امریکہ نے روس کے خوف سے یر غمال بنایا تھا اب اس سحر سے نکل رہے ہیں۔ عامی معیشت وسیاست میں چین کی مستحکم ہوتی ہوئی پوزیشن متعدد ممالک کے لئے پریشانی کا باعث بن چکی ہے، قابل غور امر یہ بھی ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا سامنا کرنے کے لئے متعدد ممالک امریکہ اور یورپ پر انحصار کئے ہوئے تھے مگر اب انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ ان دونوں خطوں کے اپنے مسائل ہیں اور اندرونی سطح پر بھی شدید کشمکش پائی جاتی ہے لہٰذا اس لئے ان پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

چین کی بڑھتی ہوئی صنعتی ، دفاعی اور جوہری صلاحیتوں سے خائف امریکہ کو 1980 ء جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب جاپانی صنعتی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے ”سپر پاور“ کو خوف کا شکار کئے رکھا تھا۔ دنیا کے تقریباََ بیشتر ممالک میں چینی سرمایہ کاروں نے محفوظ دالرز کے ذخائر کی انبار سازی کے وسیع پیمانے پر استعمال کا آغاز کررکھا ہے جس کیلئے روزگار کے نئے مواقع بھی فراہم کئے جارہے ہیں۔

چین کی فوج کا شمار دنیا کی سب سے بڑی فوج میں ہوتا ہے۔ چینی صدر کو فوج میں جرات مندانہ اور وسیع اصلاحات لانے میں کوئی عار نہیں رہا اور ان کے نتیجے میں چینی فوج یعنی پیپلز لیبریشن آرمی میں خاصی اہم تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ چینی قیادت اپنے دفاع پر توجہ مرکوز کئے ہے جس سے کوئی شک وشبے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ بیجنگ کے فوجی عزائم میں اضافہ ہورہا ہے او ر وہ امریکہ کی برتری کو چیلنج کرنے کی تیاری میں ہے لیکن چین ٹیکنالوجی اور عسکری صلاحیت میں ابھی بھی امریکہ اور جاپان سے کہیں پیچھے ہے ، اس کے علاوہ چین کا امریکہ کے ساتھ جنوبی بحیرہ چین کے خطے میں مصنوعی جزائر بنانے اور وہاں فوجی سرگرمی پر بھی سخت اختلاف ہے۔

چین نے بھی حال ہی میں افریقی ملک جبوتی میں اس امریکی اڈے کے قریب اپنا پہلا فوجی اڈہ قائم کیا ہے جو امریکی فوجی اڈے جس کا نام ”کیمپ لیمز“ ہے سے چند ہی میل کے فاصلے پر ہے ۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد اس اڈے کو قائم کیا تھا اب بھی اسے مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنی بڑی اور اہم فوجی کاروائیوں کے لئے استعمال کررہا ہے ، یاد رہے کہ امریکہ کی جانب سے یمن میں ہونے والی فوجی کاروائی بھی اسی کیمپ سے ہوئی تھی۔

امریکی انتظامیہ کے نزدیک چین براہ راست ان بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو چیلنج کررہا ہے کہ امریکہ اب ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت سے تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے اور اس امر کا اعتراف امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھی کیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی اسٹریٹیجک تعلقات میں بھاری اتحادی ہے اور چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اس نوعیت کے نہیں ہو سکتے ہیں۔

چینی صدر شی جن پنگ 5 سالہ دور میں جتنے قابل ذکر اقدامات کئے گئے ان میں فوجی اصلاحات سب سے زیادہ اہم ہیں اور یہ اصلاحات مستقبل میں چینی سیاست کے رخ کے بارے میں بہت کچھ واضح کرتی ہیں۔ امریکہ اس وقت پوری دنیا میں فوجی اور اقتصادی طاقت کے اعتبار سے اعلیٰ سطح پر ہے اس کی یہ حیثیت اب تسلیم شدہ ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ روس اقتصادی لحاظ سے کہیں پیچھے ہے، اس کے ٹکڑے ہونے سے اس کی فوجی طاقت بھی بکھر گئی ، جہاں تک چین کا تعلق ہے اس کی پالیسی ابھی تک محدود ہے۔

چین اقتصادی طور پر تیزی سے ترقی کررہا ہے اور اس کی معیشت امریکی معیشت سے بھی آگے نکلنے کو ہے ۔ چین مستقبل قریب میں عالمی سطح پر زیادہ سرگرم کردار ادا کرتادکھائی دے رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ بھارت اور امریکہ اپنی خود مختاری کا دفاع کرنے والے ممالک کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ چین ایشیا کو ایک بھر پور بلاک کی شکل میں عالمی معیشت کے بڑے عنصر کے طور پرسامنے لانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور ”ون بیلٹ ون روڈ“ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن امریکہ ، بھارت اور اس کے اتحادی مماک چین کی ابھرتی ہوئی قوت کسی بھی صورت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، لہٰذا چین کی ترقی وخوشحالی کے اس سفر میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نومبر میں چین سمیت دیگر ایشیائی ممالک کا ممکنہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Trump Ki Afghan Palice Me Khonn rezzi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.