تھر میں موت کا رقص اور سندھ حکومت کی بے حسی!

غذائی قلت موت کا سبب بننے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 204 میں سے 183 ڈسپنسریوں کو تین برس سے بجٹ ہی فراہم نہ کیا جاسکا

بدھ 8 نومبر 2017

Thaar Me Mout ka Raqs or Sindh Hkomat ki Be Basi
راؤ محمد شاہد اقبال:
ضلع تھر پارکر پاکستان کے 156اضلاع میں سب سے زیادہ غربت ، افلاسی ، بدانتظامی، پسماندگی اور حکومتی عدم توجہی کا شکار علاقہ ہے، کہنے کو یہ علاقہ کوئلہ ، گیس اور پیٹرول کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن سندھ حکومت کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق ضلع تھر پارکر میں کام کرنے والی 204 میں سے 183 ڈسپنسریوں کو گزشتہ تین برس سے بجٹ ہی فراہم نہیں کیا گیا، ، اس کے علاوہ ضلع بھر میں 6 رورل ہیلتھ سینٹر اور 2 میٹرنٹی سینٹر بھی پانچ برس سے بغیر کسی بجٹ کے کام کررہے ہیں ۔

تھر میں غربت کا یہ حال ہے کہ لوگوں کو دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی بھی بڑی تگ ودود کے بعد ہی میسر آتی ہے ۔ تھر پارکر میں بچوں کی اموات کی اصل وجہ بھی ماؤں کا غذائی قلت کا شکار ہونا ہی ہے، یہاں جشن تھر منایا جارہا ہے وہاں لوگوں کے پاس کفن کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے، سرکاری افسران کا ضمیر مرچکا ہے انہیں صرف اپنی تنخواہوں اور مراعات کی فکر ہے، یہ لوگ وہاں بھوک سے مرتے ہوئے معصوم بچوں کی میتیں دیکھنے اور ان کے والدین کے دکھ میں شریک ہونا بھی گوارا نہیں کرتے، یہ افسران تو صرف پکنک کے لئے تھر جاتے ہیں، سوچتے ہوں گے چلو ماردی کا کنواں دیکھ لیں“ آپ حیران نہ ہوں یہ دل کو کبیدہ خاطر کرنے والے الفاظ کسی ٹی وی اینکر کے پروگرام کا ابتدائیہ نہیں اور نہ کسی کالم نگار کے ذہنی تخیل کا شاخسانہ ہیں اور نہ ہی یہ خیالات سندھ حکومت کے کسی کٹر مخالف ذہن کی پیداوار ہیں۔

(جاری ہے)

جنہیں مخالفانہ چپقلش قرار دے کر نظر انداز کیا جاسکے بلکہ یہ تو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کے وہ ریمارکس ہیں جو انہوں نے تھر پارکر میں صحت کی تباہ حال صورت کے کیس کی سماعت کے دوران ، آج سے چند ہفتوں پہلے تھر میں غذا کی قلت ، صحت کی سہولیات کے حوالے سے سندھ حکومت کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے دیئے تھے۔

درج بالا سطور سندھ حکومت کی ”گڈگورننس“ کے خلاف کتنی بھیانک چارج شیٹ ہے اس کا اندازہ توآپ کو یہ چند سطریں پڑھ کر ہی ہوگیا ہوگا، جب چیف جسٹس سند ھ ہائی کورٹ ،سندھ حکومت کے افسران پر درج بالاالفاظ کی صورت میں سرزنش کررہے تھے تو کورٹ روم میں ہوکا عالم تھا ، وہاں موجود ہر درددل رکھنے والا شخص آبدیدہ تھا، صرف اگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی تھی تو وہ سندھ حکومت کے افسران تھے جو اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے کے بجائے مختلف طرح کی تاویلیں، حیلے بہانوں سے اپنے آپ کو اورسندھ حکومت کو درست ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کررہے تھے، اس وقت سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں یہ چشم کشا انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ تھر پارکر میں ڈاکٹروں کی کمی بھی علاج کی سہولیات کی فراہمی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

سندھ پبلک سروس کمیشن کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے تھر پارکر میں کئی برس سے ڈاکٹر مقرر نہیں کئے جاسکے جبکہ تھر پارکر میں رواں سال میں 15 اپریل تک 98 بچے جاں بحق ہوئے اور 2014ء میں 398 بچے فوت ہوئے ، جبکہ 2015 ء میں 320 بچے اور 2016 میں 98 معصوم بچے لقمہ اجل بنے۔ اکثر بچوں کی موت پیدائش کے وقت کم وزن ہونے سے ہوئی ، دلچسپ امریہ ہے کہ فراہم کی گئی اس رپورٹ کو بھی سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے نامکمل قرار دے کر رد کردیا گیا تھا۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ چند ہفتوں پہلے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے اتنی سخت سرزنش ہونے کے باوجود بھی سندھ حکومت کے رویے میں کوئی جنبش نہ آسکی۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں اس سلسلے میں کچھ عملی و انتظامی اقدامات اٹھائے جائے تاکہ ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور صحت وصفائی کی ناقص سہولیات کی وجہ سے آئے دن ہونے والی اموات کے سانحات سے مستقل طور پر نجات پائی جاسکتی ، مگر سندھ حکومت کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کو ہوا میں اڑا دینے کے نتائج نکل رہے ہیں کہ حالیہ چند دنوں کے دوران غذائی قلت کی وجہ سے 40 کے قریب معصوم بچوں کی ہلاکتیں ہوچکی ہیں جس میں ہرآنے والے نئے دن کے ساتھ 2 سے 3 ہلاکتوں کا مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

سرکاری ہسپتالوں میں اکثر ایسے بچوں کو علاج معالجہ کی غرض سے لایا جاتا ہے جس کا وزن پیدائش کے وقت ہی سے کم ہوتا ہے ، بیشتر بچوں کا زچگی کے دوران کیا جانے والا وزن 700 گرام سے بھی کم ہوتا ہے جنہیں نگہداشت کے وارڈ میں رکھنا ضروری ہوتا ہے لیکن تھرپار کر کے بیشتر ہسپتالوں میں یا تو انتہائی نگہداشت کے وارڈ سرے سے موجود ہی ہیں اور اگر ہیں بھی تو ان میں سے اکثر میں تاحال نرسز تعینات نہیں ہیں۔

نرسز نہ ہونے کی وجہ سے یہاں خواتین آنے سے کتراتی ہیں جبکہ ضلع تھرپار کر کے انتہائی اہم شہر اسلام کوٹ کے تعلقہ ہسپتال میں بچوں کا دارڈ بھی عملی طور پر کافی عرصہ سے غیر فعال ہے۔ یہاں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ وسائل کی کمی اندرون سندھ کی تعمیر وترقی میں کبھی حائل نہیں ہوئی ، اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ صرف سندھ حکومت کی رگوں میں سرایت ، کرپشن کا وہ ناسور ہے جو اسے آگے بڑھنے دیتاسندھ بھر میں ضرب المثل زبان زدِ عام ہے کہ سندھ میں ترقیاتی بجٹ کمیشن کے سائز کے حساب سے جاری کیا جاتا ہے، اگر کسی شعبہ میں کمیشن کا آسرانہ ہو تو پھر ترقیاتی بجٹ بھی اس شعبہ کو نہیں جاری کیا جاتا۔

شعبہ صحت کو نظر انداز کرنے کی بھی یہ ہی بنیادی وجہ ہے ، کاش تھرپارکر میں کسمپرسی ، نامساعد حالات اور بے سروسامانی کی زندگی گزارنے والی ہزاروں خواتین، معصوم بچوں اور بزرگوں کے دکھ کا کوئی تو مداوا کرنے والا ہو کہ ان مجبور ، لاچار اور بے اماں لوگوں کو اس عذاب سے نجات مل سکے۔ کیا سندھ حکومت میں کوئی ایسا سنجیدہ ، بردبار اور جہاں دیدہ شخص باقی بچا ہے تو تھر پار کرکے غریب لوگوں کی آہ فغاں کو سن سکے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Thaar Me Mout ka Raqs or Sindh Hkomat ki Be Basi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.